محمد حنیف رامے ایک دانشور، نثرنگار اور کئی خوبیوں کے مالک انسان تھے۔ سلیقہ سے گفتگو کرتے۔ اپنوں پرایوں سے کشادہ دلی سے ملتے۔ اپنی سیاست کا آغاز جناب ذوالفقار علی بھٹو کی رفاقت سے کیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ ان پر کرپشن کا کوئی الزام بھی نہیں لگا۔ یوں بھی یہ دور سیاست میں خدمت سے عبارت تھا۔ ابھی سیاست کو لوٹ مار کا ذریعہ بنانے کا رواج بھی نہ تھا اور آئین میں 62/63 کا وجود بھی نہ تھا۔ سیاست میں آنے والے اپنا دامن سمیٹ کر رکھتے تھے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو اپنا ایک خاص مزاج رکھتے تھے۔ ہر چند کہ انہوں نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی اور جمہوریت کا زبانی کلامی اظہار بھی کرتے تھے، مگر اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے روادار نہ تھے۔ بنیادی طور پر وہ جاگیردار تھے اور ووٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے باوجود ملک کو جاگیردارانہ انداز میں چلانا چاہتے تھے۔ ان کے دور میں حزب اختلاف کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا، مگر یہ فی الحال ہمارا موضوع نہیں۔
بات جناب حنیف رامے کی ہو رہی ہے، جو بھٹو صاحب کی جماعت میں تھے، ان کے وزیر اعلیٰ بھی رہے، خدا جانے کس قصور مین زیر عتاب آئے اور مخالفت میں ڈٹ بھی گئے۔ یہی حنیف رامے تھے، جنہوں نے مملکت خداداد پاکستان کے گرد ’’گرین کرٹن‘‘ کی تجویز دی۔ یہ سوویت یونین کے ’’آئرن کرٹن‘‘ کی طرح کی چیز تھی۔ مقصد یہ تھا کہ کچھ عرصہ ہم تنہائی میں گزار کر اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں، اپنے وسائل پر انحصار کریں، کسی سے کچھ مانگیں، نہ کسی کو کچھ دیں۔ ہمارے پاس خدا کی عطا کی ہوئی ہر نعمت موجود ہے۔ گیس ہے، تیل ہے، ہیرے جواہرات کی کانیں ہیں، گلگت بلتستان کی سرزمین معدنیات سے بھری پڑی ہے۔ مگر اس دانشور کی بروقت بات کسی نے نہیں سنی، بلکہ اسے عتاب کا نشانہ بنایا۔ فی الوقت ہم جس عذاب ناک صورت حال سے گزر رہے ہیں، جس سے نکلنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی، یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کا نتیجہ ہے۔
اس وقت ملک میں احتساب کا بڑا زور ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا فرمان ہے کہ قومی احتساب بیورو نے بدعنوانی کے الزام میں تین سو افراد کو گرفتار کیا۔ 31 شکایات کی جانچ پڑتال کی۔ 240 ریفرنس عدالتوں میں دائر کئے، جن میں سے 35 کو سزا دلائی۔ اس خبر میں جن افراد کا ذکر ہے، وہ ’’بے نام‘‘ ہیں اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ان افراد نے کتنی رقم خردبرد کی اور ان کا تعلق کس شعبے سے ہے۔ البتہ سارا زور پنجاب پر ہے اور خصوصیت سے شریف خاندان نشانہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں بھائیوں کے سزایاب ہونے سے ملک بد عنوانیوں سے پاک ہو جائے گا؟ اور یہ بھی کہ دولت چھپانا بھی چرانے کی طرح جرم قرار دیا جا سکتا ہے؟ گزشتہ برسوں سے سیاست کی جو جنگ جاری تھی، انتخابات کے میدان میں عمران خان یہ جنگ جیت چکے ہیں، چند دن کی بات ہے کہ عمران خان وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیں گے۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم نے پیپلز پارٹی کو میدان سیاست سے آئوٹ کرنے کے لیے شریف خاندان کے سر پر ہاتھ رکھا، پھر یہ خاندان سیاست پر چھا گیا، اب خدا جانے یہ سزا ہے یا آزمائش، مگر صاف نظر آرہا ہے کہ شریف خاندان کی مہلت عمل ختم ہوئی اور نادیدہ قوت آل راؤنڈر عمران خان کا انتخاب کر چکی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اتنی مہلت نہیں مل سکی کہ وہ اپنا جانشین میدان میں اتار سکتیں۔ آصف زرداری صاحب نے محترمہ کے قتل کے معاوضے کے طور پر پانچ برس اقتدار کے ایوانوں میں گزارے، مگر پنجاب میں پارٹی کی جڑیں کھود گئے۔ عزیزم بلاول جس کروفر سے پنجاب فتح کرنے کا عزم لے کر اٹھے تھے، اس کا انجام سب کو معلوم تھا۔ ملک میں ہونے والے انتخابات پر شکوک وشبہات کے سائے گہرے ہیں۔ غیر سرکاری ادارے بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے یہ اطلاع تشویش ناک ہے کہ ملک میں ایک سو ستر حلقوں میں دوبارہ گنتی کا عمل جاری ہے۔ معاملات عدالت میں پہنچ گئے ہیں۔
77ء کے انتخاب میں بھی دھاندلی کا شور مچا تھا۔ تحریک چلی، جس کے نتیجے میں ملک دس برس کے لیے جمہوریت سے محروم ہو گیا۔ حزب اختلاف کا یہ اچھا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے اختلافات کا اظہار اور انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائے گی۔ اب یہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں اور حزب اختلاف کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ عمران خان کا یہ اعلان خوش کن ہے کہ وہ ان حلقوں کو کھلوانے کا عندیہ دیتے ہیں، جہاں دھاندلی کا الزام لگایا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کو سلیقے سے چلانے اور اپنے منشور پر عمل درآمد کے حوالے سے تحریک انصاف پر بھاری ذمہ داری ہے۔
جہاں تک منشور پر عمل درآمد کا معاملہ ہے، وہ اتنا آسان نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ جو ہمارے ملک میں ضرورت سے زیادہ طاقتور ہے، اس سے اس کی مرضی کے خلاف کام لینا سہل نہیں۔ محمد خان جونیجو، یوسف رضا گیلانی اور خود بھٹو مرحوم اس کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’ایمپائر‘‘ عمران خان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ اس نے ان کی خواہش اور آرزو کے مطابق ان کے تمام مخالفین کو آؤٹ کرنے کیلئے انگلی تو اٹھا دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران کو کتنی مہلت ملتی ہے اور وہ اپنی ٹیم کے انتخاب میں کیا ہنر آزماتے ہیں۔ جہاں تک معیشت کی بہتری کا معاملہ ہے تو متوقع وزیر خزانہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ یہی باتیں سابقہ حکومت بھی کرتی رہی ہے۔ انہیں کس قدر کامیابی ہوئی، یہ سب کے سامنے ہے۔ عمران خان اور اسد عمر کو کتنی کامیابی ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ ہماری تو دعا ہے:
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو