عبدالمالک مجاہد
آئیے اپنے پیارے رسولؐ کے اسوہ کو دیکھتے ہیں کہ آپؐ کا طرز عمل کیسا تھا!! مسند احمد میں ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے سوال کیا کہ آپؐ جب گھر میں تشریف فرما ہوتے تو آپؐ کیا کرتے تھے۔ جواب میں ہماری اماں جان سیدہ عائشہؓ بتاتی ہیں: ’’آپؐ اپنے کپڑوں کو خود ہی سی لیا کرتے۔ اپنے جوتے کو سی لیتے اور اپنے گھر میں وہ سارے کام کر لیا کرتے جو دوسرے مرد اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔‘‘ قارئین کرام! کیا یہ اپنے گھر والوں، اہل خانہ کے ساتھ رحمت کا برتاؤ نہیں ہے۔
جہاں تک بچوں کے ساتھ رحمت کا تعلق ہے تو اس بارے میں آئیے سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت کردہ حدیث کو پڑھتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: میں نماز پڑھ رہا ہوتا ہوں، میری خواہش ہوتی ہے کہ میں نماز کو لمبا کروں۔ اس دوران کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو میں اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں۔ اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ بچے کے رونے سے اس کی ماں پر کیا گزرتی ہے۔
امت کے علمائے کرام اور ائمہ مساجد کے لیے آپؐ کے اس عمل میں کتنا درس ہے۔ ائمہ حرمین کی نماز کو ملاحظہ کیجیے، بڑی مختصر ہوتی ہے۔ خصوصاً جیسے جیسے رش بڑھتا جاتا ہے، تھوڑی سی آیات کی تلاوت اور رکوع وسجود مختصر کر دیئے جاتے ہیں۔ لوگوں پر شفقت کرتے ہوئے… نجانے کون کس حالت میں نماز پڑھ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دھوپ میں کھڑا ہو، یا بیمار ہو کسی کا بچہ رو رہا ہو۔ کوئی تھکا ہوا ہو۔
رسول اکرمؐ کی بچوں کے ساتھ رحمت کو ملاحظہ کیجیے کہ آپؐ بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے، بعض اوقات انہیں چومتے بھی تھے۔ ایک صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا: رسول اکرمؐ نے سیدنا حسنؓ بن علیؓ کو ایک ران پر اور دوسری ران پر سیدنا اسامہ بن زیدؓ کو بٹھایا ہوا تھا۔ آپؐ کبھی سیدنا حسنؓ کو چومتے اور کبھی اسامہؓ کو چومتے تھے۔
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ گلی میں سے گزرتے، جو بچے کھیل رہے ہوتے، آپؐ ان کو سلام کرتے۔ قارئین کرام! ذرا اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کبھی کبھار آپ گلی سے گزر رہے ہوں، دیکھا بچے کھیل رہے ہیں تو اپنے نبیؐ کی سنت کی اقتدا میں آپ بھی ان کو سلام کہا کریں۔
رسول اکرمؐ نے اپنی امت کو عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا ہے، حتیٰ کہ اگر آپ ایک بچے کو پیارکرتے ہیں، اسے بوسہ دیتے ہیں تو اس کے بھائی کو بھی ضرور بوسہ دیجیے یا پیار کیجیے۔ ایک بچے کو پیار کیا، دوسرے کو نہیں کیا تو وہ محسوس کرتا ہے کہ میرے ساتھ ابو اتنا پیار کیوں نہیں کرتے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک بچہ بڑا ذہین و فطین ہے۔ کلاس میں ہمیشہ پوزیشن لیتا ہے۔ مگر اس کا بھائی اتنا ذہین نہیں۔ ایک بچہ خوبصورت ہے، دوسرا بد صورت ہے۔ ایک صاف ستھرا رہتا ہے، دوسرا گندہ رہتا ہے۔ فطری بات ہے کہ آپ ذہین، پوزیشن ہولڈر، خوبصورت اور صاف ستھرے بچے کو اہمیت دیں گے، مگر اس بات کو نہ بھولیں کہ اگر آپ نالائق بچے کو مسلسل نظر انداز کریں گے تو وہ مزید بگڑ جائے گا، وہ ضدی ہو جائے گا۔ آپ اسے بھی پیار کریں، اسے گلے سے لگائیں۔ اسے بھی احساس دلائیں کہ تم بھی کم ذہین نہیں ہو۔ تم بھی آگے نکل سکتے ہو۔
ماہرین نفسیات نے اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک اچھا باپ بیٹوں یا بیٹیوں میں فرق نہیں کرتا۔ جہاں تک کپڑوں، جیب خرچ کا تعلق ہے تو یہ چیزیں اولاد کے مابین ہر حال میں مساوی ہوں گی۔ اگر کوئی بچوں میں فرق کرتا ہے تو یقینا وہ گناہ گار ہے۔ ایک آپ ایک بچے کو چومتے ہیں تو دوسرے کو بھی ضرور چومیں، تاہم نسبتًا بڑے بچوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ جب تم چھوٹے تھے تو تمہارے ساتھ بھی اتنا ہی پیار ہوتا تھا۔
رسول اکرمؐ ایک دن سیدنا حسن بن علیؓ اور سیدنا اسامہ بن زیدؓ کو چوم رہے تھے۔ آپؐ کے پاس بنو تمیم کا بڑا سردار اقرع بن حابسؓ بیٹھا ہوا تھا۔ کہنے لگا: میرے دس بیٹے ہیں، میں نے تو انہیں آج تک نہیں چوما۔
رسول اکرمؐ نے اس کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا: ’’جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
آج کے بچے ہمارا کل کا مستقبل ہیں، ہمیں ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ چھوٹے بچوں کی اگر تربیت عمدہ اور اچھی ہو تو کل کو ہماری توقعات پر پورا اتریں گے۔ ان کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کی جائے، انہیں دینی معلومات دی جائیں۔ بچپن سے ہی ان کو شرکیات و بدعات سے روکا جائے۔ انہیں وضو، نماز کا طریقہ سکھایا جائے۔
مجھے یاد پڑتا ہے میرے والد محترم اچانک کسی دن فرمایا کرتے تھے: چلو بیٹا! نماز سناؤ۔ التحیات میں کیا پڑھا جاتا ہے۔ دعائے قنوت سناؤ۔ اگر کبھی غلطی ہوتی تو اصلاح کرتے۔ کہتے: اچھا کل کو اچھی طرح یاد کر لینا، میں دوبارہ سنوں گا۔ یہ بھی بچے کی تربیت اور اس کے ساتھ رحمت وشفقت ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والد صاحب کی تمامتر محبت کے باوجود ہمیں نماز سے کبھی چھٹی نہ ملی۔ والد صاحب گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے والدہ محترمہ سے پوچھتے کہ بچوں نے نماز پڑھی ہے یا نہیں؟ اگر کبھی سستی ہو گئی ہوتی، ہم سو رہے ہوتے تو اٹھا کر پہلے اپنی نگرانی میں وضو کرواتے، پھر نماز پڑھواتے، پھر سونے کی اجازت ملتی۔
میرے نزدیک یہ بچوں پر والد کی رحمت ہے۔ یہی اسوۂ رسولؐ ہے۔ بچوں کو قرآن پڑھانے کا اہتمام کیجیے۔ جس طرح ہم دنیاوی تعلیم کے لیے خرچ کرتے ہیں، اعلیٰ اسکولوں میں ان کے داخلے کا بندوبست کرتے ہیں۔ بچوں کی دینی، اخلاقی اور قرآنی تعلیم کا بھی بندوبست کیجیے۔ بچوں کے لیے گھر پہ قاری صاحب کا بندوبست کیجیے۔ جو ہفتہ میں کم از کم تین دن انہیں قرآن مجید پڑھائیں۔ قرآن کریم کی تعلیم اسکول کی تعلیم سےزیادہ ضروری ہے۔ کبھی کبھار گھر کے افراد کو لے کر بیٹھ جائیں، چلو بھئی! آج ہم سب مل کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ بچوں سے دعائیں سننے کا بھی اہتمام کریں۔ جو صحیح سنائے اسے انعام دیں۔
بعض گھرانوں میں بیٹیوں اور بیٹوں میں فرق کیا جاتا ہے۔ اسلام نے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رکھا، بلکہ بیٹیوں کی فضیلت احادیث میں زیادہ بیان کی گئی ہے۔ اگر بیٹوں کیلئے قرآن پاک کی تعلیم کا بندوبست کیا ہے تو بیٹیوں کو بھی محروم نہ کیجیے۔ اب تو خدا کے فضل سے گھر گھر قرآن پاک کی تعلیم کا بندوبست ہو گیا ہے اور کوئی نہیں تو انٹر نیٹ پر پڑھانے والے اساتذہ تو مل ہی جاتے ہیں۔ ٭