خلاصۂ تفسیر

0

پھر (افاقہ کے بعد) خدا تعالیٰ نے (اس فرشتے کے ذریعے سے) اپنے بندے (آپؐ) پر وحی نازل فرمائی، جو کچھ نازل فرمانا تھی (جس کی تعیین بالتخصیص معلوم نہیں اور نہ معلوم ہونے کی حاجت اور باوجودیکہ اصل مقصود اس وقت وحی نازل کرنا نہیں، بلکہ جبرئیل کو ان کی اصلی صورت میں دکھلا کر ان کی پوری معرفت آپ کو عطا کرنی تھی، مگر اس وقت اور بھی وحی نازل فرمانا شاید اس لئے ہو کہ یہ معرفت میں اور زیادہ معین ہو، کیونکہ اس وقت کی وحی کو جس کا منجانبِ خدا ہونا جبرئیل (علیہ السلام) کی اصل صورت میں ہونے کی وجہ سے قطعی اور یقینی ہے اور دوسرے اوقات کی وحی جو بواسطہ صورت بشریہ ہے جب آنحضرتؐ ان دونوں کو ایک شان پر دیکھیں گے تو زیادہ سے زیادہ یقین میں قوت ہوگی کہ دونوں حالتوں میں وحی لانے والا واسطہ یعنی فرشتہ ایک ہی ہے، جیسا کہ کسی شخص کی آواز کے لب و لہجہ اور طرز کلام سے خوب آگاہ ہوں تو اگر کبھی وہ صورت بدل کر بھی بولتا ہے تو صاف پہچانا جاتا ہے ، آگے اس دیکھنے کے متعلق ایک شبہ کا جواب ہے وہ شبہ یہ ہے کہ صورت اصلیہ میں دیکھنے کے باوجود یہ بھی تو احتمال ہوسکتا ہے کہ قلب کے ادراک و احساس میں غلطی ہو جائے جیسا کہ احساسات میں غلطی ہو جانا اکثر مشاہدہ کیا جاتا ہے ، مجنون باوجود سلامت جسم کے بعض اوقات پہچانے ہوئے لوگوں کو دوسرا شخص بتلانے لگتا ہے، پس یہ رئویت صحیحہ تھی یا نہیں، آگے اس شبہ کا جواب ہے، یعنی وہ رئویت صحیحہ تھی کہ اس کے دیکھنے کے وقت) قلب نے دیکھی ہوئی چیز میں غلطی نہیں کی (رہا یہ کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ قلب نے غلطی نہیں کی؟ سو بات یہ ہے کہ اگر مطلقاً ایسے احتمالات قابل التفات ہوا کریں تو محسوسات کا کبھی اعتبار نہ رہے، پھر تو ساری دنیا کے معاملات ہی مختلف ہو جاویں، ہاں کسی کے پاس کوئی منشا شبہ کا معتدبہ موجود ہو تو اس پر غور کیا جاتا ہے اور احتمال خطائے قلبی کا منشا یہ ہو سکتا ہے کہ ادراک کرنے والا مختل العقل ہو اور حضور اقدسؐ کا صحیح العقل، فطین و ذہین، صاحب فراست ہونا مشاہد اور ظاہر تھا، چونکہ باوجود اس اثبات بلیغ کے پھر بھی معاندین جدال و خلاف سے باز نہ آتے تھے، اسی لئے آگے بطور توبیخ و تعجیب کے ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم نے ایسے شافی کافی بیان سے معرفت و رئویت کا ثبوت سن لیا) تو کیا ان (پیغمبر) سے ان کی دیکھی (بھالی) ہوئی چیز میں نزاع کرتے ہو (یعنی جن چیزوں کا علم و ادراک انسان کو ہوتا ہے، ان میں محسوسات جیسی چیزیں شک و شبہ سے بالاتر ہوتی ہیں، غضب کی بات ہے کہ تم حیات میں بھی اختلاف کرتے ہو، پھر یوں تو تمہاری حسیات میں بھی ہزاروں خدشے نکل سکتے ہیں) (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More