مہذب دنیا کا امتحان

0

گزشتہ روز امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ اس قدم کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں اور اسے ہٹ دھرمی سے کم کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام کو ان پابندیوں کی بنیاد قرار دیا ہے، جس کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ 2015ء سے ایران اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کر چکا ہے اور اس سلسلے میں Joint Comprehensive Plan of Action کے عنوان سے ایک معاہدہ بھی موجود ہے، جو JCPOA کہلاتا ہے۔ اس معاہدے پر سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی اور یورپی یونین نے دستخط کئے تھے۔ معاہدے کو عالمی جوہری کمیشن IAEC کی سہہ ماہی تصدیق سے مشروط کیا گیا ہے۔ IAEC اب تک ایرانی جوہری تنصیبات کے 10 معائنے کر چکا ہے اور ہر بار اس کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ایران جوہری معاہدے پر مخلصانہ عمل درآمد کر رہا ہے۔
اس معاہدے پر ساری دنیا میں صرف اسرائیل کو اعتراض ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ ایران جوہری معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ انہوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی سلامتی کے لئے شدید خطرہ قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ ایرانیوں نے صدر اوباما کو بے وقوف بنا کر 2015ء میں جوہری پروگرام ختم کرنے کا ایک جعلی معاہدہ کیا، جس کے نتیجے میں اس پر عائد معاشی پابندیاں ختم کر دی گیئں۔
گزشتہ ماہ ایران کے خلاف اقدامات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے امریکی دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر منصوبہ بندی جناب برائن ہک (Brian Hook) نے کہا کہ ایران پر دبائو کیلئے Snap-back حکمت عملی اختیار کی جائے گی جو فٹ بال میں گیند کو جھپٹ کر چھیننے اور پیچھے موجود کھلاڑی کی طرف پھینکنے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ کل جاری ہونے والا صدراتی فرمان پہلا Snap-back حملہ ہے، جو پیر کی رات بارہ بجے سے نافذ العمل ہوگا۔ اس حکم کے تحت:
٭… ایرانی بینک امریکی ڈالر نہیں خرید سکیں گے۔
٭… بوئنگ اور ایئربس کی جانب سے ہوا پیمائی ملی یا ہماکو طیاروں کی فروخت بند کر دی گئی ہے۔
٭… ایران سے فولاد، سونا، المونیم اور گریفائٹ سمیت تمام دھاتوں، ایرانی قالین اور ایرانی پستہ کی برآمد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
٭… ان پابندیو ں کے 90 دن بعد یعنی 4 نومبر سے دوسرے Snap-back حملے کا آغاز ہوگا، جس میں ایران سے خام تیل کی برآمد پر مکمل پابندی لگا دی جائے گی۔
یورپی یونین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں ٹرمپ کے صدارتی فرمان کی مذمت کی ہے۔ گروپ کی ترجمانی کرتے ہوئے یورپی یونین کی وزیر خارجہ محترمہ فریڈریکا مغیرنی (Federica Mogherini) نے کہا کہ ایران JCPOA پر مخلصانہ عمل کر رہا ہے، لہٰذا یہ معاہدہ برقرار رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیاں افسوس ناک ہیں اور یورپی یونین کے ایران سے تجارتی تعلقات میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ ایرانی تیل کی فروخت میں یورپ کے بینک قانونی مدد فراہم کرتے رہیں گے۔ خیال ہے کہ بوئنگ کی جانب سے ہما کو طیاروں کی فروخت پر پابندی کے باوجود ایئربس ایران کو جہازوں کی فروخت جاری رکھے گا۔
ایران نے ان پابندیوں پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خلیج فارس میں فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ قوم سے خطاب میں ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ اگر امریکہ ایرانی تیل اور مصنوعات نہیں خریدنا چاہتا تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر اس نے دوسرے ملکوں کیلئے ایرانی برآمدات کی راہ میں روڑے اٹکائے تو اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے بات چیت کی دعوت کو مسترد کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ بغل میں چھری اور منہ پر رام رام نہیں چلے گا۔ مذاکرات سے پہلے پابندیاں ختم کرنی ہوں گی۔ صدر ٹرمپ کی ہٹ دھرمی مہذب دنیا کے ضمیر کا امتحان ہے۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More