تاریخ نشیب و فراز کی دلچسپ اور دلخراش داستان ہے۔ وہ حکومتیں جو تہذیب کا آفتاب بن کر طلوع ہوئیں، وہ حکومتیں وقت کے اندھیرے میں اس طرح غائب ہوگئیں کہ ان کے زوال کے اسباب بھی معلوم نہیں ہو پائے۔ یونان کی تہذیب کس طرح ابھری اور کس طرح غروب ہوئی؟ برٹرانڈ رسل جیسے دانشور محقق اور مفکر اس سوال پر حیران ہیں۔ کچھ قومیں تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے کا سبب بنیں اور پھر تاریخ کے بہاؤ میں بہہ گئیں۔ تاریخ ایسے ممالک کے بارے میں بتاتی ہے، جنہوں نے ایک عہد میں دنیا پر حکمرانی کی، مگر آج دنیا کے نقشے پر ان ممالک کا بکھرا ہوا وجود تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ اس عروج اور زوال کو کچھ لوگ اچھا وقت اور برا وقت مانتے ہیں۔ یہ اچھا اور برا وقت صرف افراد پر نہیں، قوموں پر بھی آتا ہے۔ ایک قوم تاریخ کے بھنور میں بہت نیچے ہوتی ہے اور پھر اچانک اوپر ابھر آتی ہے اور پھر نیچے چلی جاتی ہے۔ روسی ادیب دوستو وسکی نے اپنے ناول ’’جواری‘‘ میں اس بات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ایک جواری کی قسمت میں ایک باری ایسی آتی ہے کہ وہ ہارنا بھی چاہے تو نہیں ہار سکتا۔ وہ اس کی جیت کا وقت ہوتا ہے۔ مگر جب وہ وقت گزر جاتا ہے تب وہ جیتنے کی حسرت ہارتا رہتا ہے۔‘‘
بھارت بھی اس وقت علاقائی سیاست کے کسینو پر ایک جواری کی طرح داؤ پر داؤ لگا رہا ہے۔ ہم اس ملک کا موازنہ دوستو وسکی کے خوبصورت کردار الیکسی اوانووچ سے نہیں کر سکتے۔ مگر اس ملک کا مقدر اس جواری کے مقدر سے مختلف نہیں ہو سکتا، جس کے بارے میں دانائی کو خوبصورت انداز سے بیان کرنے والی ہندوازم کی قدیم ترین کتاب ’’رگ وید‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’یہ پانسے نہیں۔ یہ جلتے ہوئے انگارے ہیں۔ ان کے میرے دل پر بہت داغ ہیں۔‘‘ مگر جس وقت کسی جواری کا اچھا وقت ہوتا ہے تو وہ جیت کے نشے میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نصف صدی تک خارجہ پالیسی میں کافی حد تک کامیاب جواری کی طرح کھیلتا رہا ہے۔ جب تک جواہر لال نہرو زندہ تھے، تب تک اس نے بھارت کی خارجہ پالیسی کو مہارت سے چلایا، مگر نہرو کے بعد بھارت کا وجود خود خطرے میں پڑ گیا۔ بھارت اس وقت نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی دباؤ کا شکار ہوتے ہوئے بھی اس مشکل وقت میں بکھرنے سے بچ گیا۔ جب سرد جنگ کا خاتمہ ہوا، تب بھارت بہت بوکھلایا ہوا تھا۔ بھارت کو خوف تھا کہ اگر امریکہ نے اس کا ساتھ نہ دیا تو وہ کہاں جائے گا؟ مگر وہ وقت بھارت کے لیے برا وقت نہیں تھا۔ بھارت نے سوشلزم ختم ہونے کے بعد بھی روس سے تعلقات ختم نہیں کیے اور امریکہ سے نئے تعلقات میں مشغول ہو گیا۔ بھارت نے اس دوران اس اسرائیل سے بھی نہ صرف تعلقات رکھے، بلکہ بہت مضبوط تعلقات رکھے، جس اسرائیل سے اس کی سفارتی دشمنی نہیں تو دوری ضرور تھی۔ بھارت نے اس عرصے کے دوران پاکستان کے خلاف کھل کر کھیلا۔ بھارت نے اس عرصے کے دوران پاکستان کو بہت پریشان کیا۔ بھارت نے پوری دنیا میں پاکستان پر کیچڑ اچھالنے کی مشق جاری رکھی۔ بھارت نے عجیب ڈبل ہی نہیں، بلکہ ڈزن پالیسیز کا مظاہرہ کیا۔ مگر اسے کہیں سے بھی بہت بڑی ناکامی نہیں ہوئی۔ بھارت ایک طرف امریکہ اور اسرائیل سے یارانہ بنائے رکھا اور دوسری طرف اس نے ایران سے بھی دوستی قائم کی۔ بھارت نے سرحدی دوری کے باوجود افغانستان میں امریکی آشیرواد سے اپنے پاؤں رکھے اور اس ملک کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔
بھارت کو اس بار بھی یقین تھا کہ وہ ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرے گا اور پاکستان سے چین کا سی پیک والے معاہدے کو تسلیم کرنے کی قیمت وصول کرے گا، مگر جب چین نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو چائے پلا کر واپس بھیجا اور چین نے شمالی اور جنوبی کوریا کے تعلقات میں بہتری لانے میں مثبت کردار ادا کرکے پوری دنیا کو حیران کردیا، تب وہ حیرانی بھارت کے لیے پریشانی کا باعث بھی بنی۔ بھارت کی یہ چال بہت پرانی ہے کہ وہ جس سے بھی تعلق رکھتا ہے، اس کی جڑیں کھودنے کی کوشش کر تا ہے۔ پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت کے ساتھ مودی حکومت کے بظاہر اچھے تعلقات تھے۔ مودی نے نواز شریف کے ساتھ ذاتی تعلقات بڑھانے کی جو چال چلی، اس چال سے نواز شریف کی حکومت کے لیے مسائل پیدا ہونا فطری امر تھا۔ میاں نواز شریف کی حکومت جانے کے بعد نریندر مودی کا رویہ ان کے لیے ایسا رہا ’’جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں‘‘ جب انتخابات میں میاں نواز شریف کی جماعت ہار گئی اور عمران خان کی جیت ہوئی، تب بھارتی میڈیا نے عمران خان کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا۔ بھارتی میڈیا نے عمران خان کے خلاف اپنا رویہ اس درجے منفی رکھا کہ عمران خان کو کامیابی کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہنا پڑا کہ بھارتی میڈیا نے مجھے ولین بنا کر پیش کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کو معلوم نہ تھا کہ بھارت کی حکمت عملی کیا ہے؟ بھارت پاکستان میں تاجدار سے نہیں، بلکہ تاج سے تعلق رکھتا ہے۔ بھارتی میڈیا کی بوکھلاہٹ کو بیلنس کرنے کے لیے نریندر مودی نے عمران خان کو فون کیا اور ان سے مل کر امن کی نئی تاریخ بنانے کی بات بھی کی۔ عمران خان کے حوالے سے یہ تذکرہ مباحثے کا موضوع ہوا کہ کیا عمران خان نریندر مودی کو اپنی تقریب حلف برداری میں دعوت دیں گے؟
عمران خان کے حوالے سے بھارت کافی پریشان ہے۔ اس پریشانی کی تین وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ عمران خان عالمی طور پر شہرت رکھتے ہیں اور وہ فارملٹی سے ملنے کے بجائے جس طرح بے تکلفی سے ملتے ہیں، ان کا یہ انداز بھارت کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ عمران خان اپنی مخصوص کشش کے باعث عالمی برداری میں اہمیت حاصل کر سکتا ہے۔ عمران خان کے حوالے سے بھارت کو یہ بھی پریشانی ہے کہ ملک کا کافی تعلیم یافتہ طبقہ عمران خان کے ساتھ ہے اور وہ عمران خان کے نئے پاکستان کے فلسفے سے ہمدردی بھی رکھتا ہے۔ بھارت عمران خان کے اس انیشیٹو سے بھی گھبرایا ہوا ہے اور بھارتی پریشانی کی تیسری اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے حکمرانوں اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے درمیاں غلط فہمیاں پیدا کرکے دوریاں بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ کیا یہ بات بھولنے جیسی ہے، جب نریندر مودی نے غیر ملکی سرزمین پر میاں نواز شریف کے کان میں کچھ کہا تھا۔ بھارت نے بینظیر بھٹو اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی خلیج بڑھانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف بھارت کے اس قدر قریب آگئے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پریشان ہوگئی۔ مگر عمران خان کے حوالے سے بھارت کو خوف ہے کہ ان کے اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے گہرے مراسم ہیں۔ وہ بھارت کی نام نہاد دوستی میں اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے نہ تو بے وفائی کرے گا اور نہ بغاوت۔ ان باتوں کی وجہ سے بھارت کی پریشانی بڑھی ہوئی ہے۔
بھارتی پریشانی کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ بھارت کو محسوس ہونے لگا ہے کہ اس وقت عالمی اور علاقائی سیاست کے ستاروں کی چال اس کے حق میں نہیں ہے۔ ایک طرف پاکستان کی داخلی سیاست بحرانی کیفیت سے باہر نکل رہی ہے اور دوسری طرف پاکستان کو خارجہ تعلقات میں نئے دوست مل رہے ہیں۔ جس وقت پاکستان میں ایک پاپولر حکومت حلف لینے کی تیاری کر رہی ہے، اس وقت پاکستان اور روس کے درمیان ستر برسوں میں پہلی مرتبہ دفاعی شعبے میں معاہدے ہوئے ہیں۔ بھارت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان نے روس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں کسی طور پر عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کافی وقت سے روس اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا عمل جاری تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف سرد جنگ کے دور کی جمی ہوئی برف پگھلتی رہی، بلکہ دونوں کے درمیان باہمی اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔ اب پاکستان اور روس کے درمیان دوستی کے ایک نئے دور کی ابتدا ہو چکی ہے۔ پاکستان کے لیے روس کی طرف دوستی کا قدم بڑھانا اس لیے بھی ضروری تھا، کیوں کہ اس طرح پاکستان نہ صرف عالمی برادری میں خارجہ تعلقات کا ایک نیا نیٹ ورک بنانے کی پوزیشن میں آئے گا، بلکہ وہ سی پیک کے معاہدے کو متوازن بنانے کی پوزیشن میں آجائے گا۔
ایک طرف پاکستان بہتر پوزیشن حاصل کر رہا ہے اور دوسری طرف بھارت کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایران پر پابندیاں نافذ کرنے کے سلسلے میں بھارت بہت گھبرایا ہوا ہے۔ بھارت کو خام تیل دینے والا ملک ایران تھا۔ ایران اور امریکہ میں دوری کے باعث بھارت نے اس گوادر پورٹ کے مقابلے میں ایران کے ساتھ جو چاہ بہار پورٹ کا منصوبہ بنایا ہے، اس میں پریشانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ یہ پریشانیاں تو خارجی نوعیت کی ہیں، جب کہ داخلی حوالے سے کشمیر کی مزاحمت اس قدر مضبوط اور طاقتور ہوگئی ہے کہ بھارت کی فوج اس وادی میں بہت خوفزدہ ہے، جس وادی میں آزادی کے متوالے مزید عوامی حمایت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت کشمیر کی تحریک کو کچلنے میں نہ صرف ناکام ہوا ہے، بلکہ وہ کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کی تیز رفتاری اور توانائی سے بہت پریشان ہے۔ بھارت کی نظر ایک بار پھر اپنے ان پنڈتوں کی طرف اٹھ رہی ہے، جو لمبی جٹاؤں اور نارنجی چادروں کے ساتھ ستاروں کی چال بھی بتاتے ہیں اور پوجا پاٹھ کے مختلف طریقوں سے ستاروں کی چال بدلنے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ بھارت تو امریکہ کے ساتھ مل کر خلائی دور میں داخل ہونے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ مگر اس کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ تاریخ نشیب و فراز کی طویل کہانی ہے۔ اس وقت بھارت کا سیاسی اور ریاستی سفر اس گہرائی کے طرف ہے، جس پر چلتے ہوئے چھلانگ لگانا بھی محال ہوتا ہے۔ بھارت اپنے برے وقت کو آہستہ آہستہ برداشت کرنے کے سلسلے میں مجبور ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post