حضرت مالک بن دینارؒ کے زمانے میں دو بھائی آتش پرست مشہور تھے۔ ایک دن چھوٹے بھائی نے بڑے سے کہا کہ بھائی صاحب! آپ نے تہتر سال آگ کی پرستش کی ہے اور میں نے پینتیس سال، آئو آج ہم آزما کر دیکھیں کہ یہ آگ ہم کو دوسرے غیر آتش پرستوں کی طرح تو نہیں جلاتی؟ اگر اس نے ہم کو نہ جلایا تو ہم آئندہ آتش پرستی کریں گے، ورنہ اسے ترک کر دیں گے۔
چنانچہ اس نے آگ جلا کر بڑے بھائی سے کہا کہ آپ پہلے آگ پر ہاتھ رکھیں گے یا میں رکھوں؟ اس نے کہا کہ تم پہلے ہاتھ رکھو! جب چھوٹے بھائی نے آگ پر ہاتھ رکھا تو آگ نے اپنی خاصیت کے مطابق اس کی انگلی جلا دی۔ اس پر اس نے آگ سے ہاتھ کھینچ کر کہا کہ ہائے افسوس! میں نے تجھے اتنے عرصے تک پوجا، پھر بھی تو نے میری انگلی جلا دی۔ آخر اس نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ آخر ہم ایسی ذات کی عبادت کیوں نہ کریں، جس کی برسوں کی نافرمانی اور گناہ پر اگر ہم سچے دل سے توبہ و استغفار کر لیں تو ہمیں معاف فرما دے!
یہ بات بڑے بھائی کی سمجھ میں بھی آ گئی اور دونوں بھائی صحیح راستے کے متلاشی بن کر حضرت مالک بن دینارؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت مالک بن دینارؒ بصرہ میں لوگوں کو وعظ سنا رہے ہیں، ان کو دیکھ کر بڑے بھائی کہنے لگے کہ میں مسلمان نہیں ہوتا، کیونکہ میری عمر کا زیادہ تر حصہ آگ کی پرستش میں گزرا ہے، اب اگر میں مسلمان ہو گیا تو میرے گھر والے مجھے ملامت کریں گے اور میں ان کی ملامت کے مقابلے میں آگ کو ترجیح دیتا ہوں، چھوٹے بھائی نے سمجھایا کہ لوگوں کی ملامت تو ایک دن زائل ہو جائے گی، لیکن دوزخ کی آگ زائل نہ ہو گی، مگر بڑے بھائی کی سمجھ میں نہ آیا اور وہ بدنصیب واپس چلا گیا۔
لیکن چھوٹا بھائی اپنے بیوی بچوں کو لے کر حضرت مالک بن دینارؒ کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور وعظ سے فارغ ہونے کے بعد تمام ماجرا ان کو سنایا اور درخواست کی کہ اس کو مع بیوی بچوں کے مسلمان بنائیں۔ چنانچہ حضرت مالک بن دینارؒ نے ان سب کو مسلمان کیا اور اس نوجوان نے جب مسلمان ہو کر واپس ہونا چاہا تو حضرت مالک بن دینارؒ نے فرمایا کہ: ذرا ٹھہرو! میں تمہارے لئے اپنے شاگردوں سے کچھ جمع کر دوں، جس پر اس نوجوان نے عرض کیا کہ میں کچھ نہیں چاہتا اور واپسی میں ایک ویرانہ میں آباد گھر دیکھ کر اس میں مقیم ہو گیا۔
صبح کو بیوی نے کہا کہ: بازار جا کر کوئی ایسا کام تلاش کرو، جس سے بچوں کا گزر بسر ہو سکے۔ چنانچہ وہ نوجوان تلاش معاش کے لئے نکلا، مگر کوئی مزدوری نہ ملی تو اس نے سوچا آخر خدا ہی کی مزدوری کیوں نہ کروں؟ یہ سوچ کر دوسرے روز ویرانہ میں جا کر مغرب تک برابر نماز پڑھتا رہا اور رات کو پھر خالی ہاتھ مکان پر چلا گیا۔ بیوی نے دریافت کیا کہ ہمارے لئے کچھ لائے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ آج میں نے بادشاہ کی مزدوری کی ہے، مگر اس نے کچھ نہیں دیا، کل کو اجرت دینے کا کہہ دیا ہے۔
یہ سن کر سب بچے مجبوراً بھوکے سو رہے، صبح کو پھر بازار گیا اور کوئی مزدوری نہ ملی تو وہ دن بھی عبادت الٰہی میں گزار دیا اور شام کو گھر آ کر بیوی سے کہا کہ بادشاہ نے جمعہ تک اجرت دینے کا وعدہ کیا ہے، آخر جمعہ بھی آ گیا اور جمعہ کو بھی جب کوئی کام نہ ملا تو اس دن بھی وہ عبادت ہی میں مصروف رہا اور زوال کے بعد دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کی، اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اسلام کی دولت سے نواز کر ہدایت عطا فرمائی، بس اس دین کی برکت اور عظمت سے اہل و عیال کے نفقہ کا غم بھی میرے دل سے دور فرما دے، کیونکہ مجھے ان کے حال کے تبدیل ہو جانے کا اندیشہ ہے۔
یہ دعا کر کے جمعہ کی نماز کے وقت جب وہ مسجد میں گیا تو اس کے عیال پر بھوک کا بہت غلبہ تھا، اتفاقاً کسی شخص نے آ کر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس کی آواز سن کر اس کی بیوی باہر آئی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک خوبصورت نوجوان سنہری رومال سے ڈھکا ہوا ایک طباق لئے کھڑا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس کو لے لو اور اپنے شوہر سے کہہ دینا کہ یہ اس کی دو دن کی مزدوری ہے اور اگر تم زیادہ کام کرتے تو مزدوری اور زیادہ ملتی، چنانچہ اس عورت نے طباق کھولا تو اس میں ایک ہزار اشرفیاں تھیں۔ وہ ان میں سے ایک اشرفی لے کر ایک نصرانی صراف کے ہاں گئی، جس نے اشرفی کا وزن کیا تو دو مثقال سے زیادہ اتری۔ اس پر وہ حیران ہو کر جب اشرفی کے نقوش دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ آخرت کے ہدایا سے ہے، یہ دیکھ کر صراف نے دریافت کیا یہ اشرفی تم کو کہاں سے ملی ہے؟ عورت نے اس کو تمام واقعہ سنایا جس کو سن کر وہ نصرانی صراف بھی مسلمان ہو گیا اور دو ہزار درہم عورت کو دے کر کہا، ان کو خرچ کرو اور جب یہ خرچ ہو جائیں تو پھر مجھے اطلاع دو۔
اس عورت نے صراف سے درہم لے کر کھانا تیار کیا، ادھر اس کا شوہر مغرب کے بعد گھر آنے لگا تو نہایت خشوع و خضوع سے دو رکعت ادا کر کے رومال میں مٹی باندھ لی اور دل میں خیال کیا کہ جب بیوی تقاضا کرے گی تو کہہ دوں گا، اس میں آٹا ہے اور یہی میرے کام کی مزدوری ہے۔ چنانچہ جب وہ گھر پہنچا تو گھر کو فرش و فروش سے آراستہ پایا اور کھانے کی خوشبو سونگھی تو رومال دروازے پر ہی رکھ دیا، تاکہ بیوی کو معلوم نہ ہو سکے۔گھر میں پہنچ کر بیوی سے حال معلوم کیا تو اس نے پوری کیفیت بتا دی۔ جس کو سن کر وہ مرد خدا سجدہ شکر بجا لایا، پھر بیوی نے دریافت کیا کہ رومال میں کیا لائے ہو جو دروازہ پر رکھ آئے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اس کا حال مجھ سے نہ پوچھو اور یہ کہہ کر دروازہ میں گیا کہ مٹی پھینک کر رومال لے آئے تو دیکھا تو اس میں مٹی کے بجائے آٹا تھا، یہ دیکھ کر تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور پھر خدا کے سامنے سر بسجود ہو گیا اور پھر برابر خدا کی عبادت میں مصروف رہا، یہاں تک کہ اس کی روح نے قفس عنصری سے پرواز کیا۔ رب تعالیٰ اس عبادت گزار مومن پر رحم فرمائے۔
حاصل … سچ ہے جو خدا کا ہو جاتا ہے، خدا اس کی ضرورتیں غیب سے پوری کرتا رہتا ہے۔ دعا ہے کہ رب تعالیٰ ہم سب کو بھی اس واقعے سے سبق حاصل کر کے نیک بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
(سبق آموز واقعات)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post