میت کے ساتھ تین چیزوں کا تعلق

0

انسؓ نبی کریمؐ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ میت کے ساتھ تین چیزوں کا تعلق ہوتا ہے، جن میں سے دو چیزیں یہیں دنیا میں رہ جاتی ہیں اور میت سے ان کا تعلق ختم ہو جاتا ہے اور ایک چیز میت کے ساتھ جاتی ہے۔ وہ تین چیزیں یہ ہیں: اہل و عیال، مال اور اعمال۔ اہل وعیال اور مال سے میت کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور یہ دونوں چیزیں دنیا میں ہی رہ جاتی ہیں اور میت کے اعمال موت کے بعد بھی میت کے ساتھ رہتے ہیں۔
حدیث مذکور کے مفہوم کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں انسان کی محبوب ترین چیزیں تین ہیں۔ مال، دوم احباب و رشتہ دار، سوم اعمال۔
ان تین امور میں سے پہلے دو امور کا تعلق اور وابستگی انسان کے ساتھ پائیدار نہیں۔ انسان کے ساتھ ان دو کا تعلق صرف موت تک ہے یا زیادہ سے زیادہ قبر تک اور یہ بات ظاہر ہے کہ یہ تعلق ناپائیدار اور بے اعتبار ہے، یہ تعلق اعتماد کے قابل نہیں ہے۔
البتہ اعمال کا تعلق پائیدار اور دائمی ہے، وہ موت کے بعد قبر میں بھی ساتھ رہیں گے اور برزخی زندگی کے بعد آخرت کی تمام منازل میں بھی ساتھ رہیں گے، حتیٰ کہ جنت و دوزخ میں بھی اچھے اور برے اعمال کا تعلق باقی رہے گا۔ لہٰذا عقل مند وہ شخص ہے، جو اچھے اعمال اپنائے اور برے اعمال سے بچے۔ نیز عقل مند وہ انسان ہے، جو اپنے دل کو مال کی حرص اور اس کی محبت سے خالی اور پاک رکھے۔
قرب الٰہی کیسے حاصل ہوگا؟
حضرت ابویزید بسطامیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں خدا جل جلالہ کی زیارت کی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: (یا الٰہی) میں آپ کو کیسے پا سکوں گا؟ رب تعالیٰ فرمایا: نفس کی اتباع چھوڑ کر میری طرف آئو۔ (یعنی پھر مجھے پا لو گے)
اتباع نفس و خواہشات نفس کے اتباع نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ ابو یزیدؒ کے اس خواب میں یہ اہم بات بتلائی گئی ہے کہ اتباع نفس چھوڑنے سے اور اصلاح نفس سے رب تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے، اسی طرح اتباع نفس کے ترک سے رب تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور جنت حاصل ہو سکتی ہے۔
کسب مال کے تین مستحسن طریقے
1۔ زراعت 2۔ صناعت یعنی حرفت و صنعت مختلف پیشے اسی قسم میں داخل ہیں، پیشوں کی انواع و اقسام بے شمار ہیں۔ 3۔ تجارت، تجارت کی انواع و اقسام بے شمار ہیں۔
یہ تین اصولی ذرائع ہیں آمدنِ مال و تحصیل دولت کے، اور یہ تینوں از روئے شرع جائز بلکہ مستحسن ہیں اور بعض صورتوں میں فرضِ کفایہ ہیں۔
پھر علماء کا اختلاف ہے یہ ان تین انواع میں سے کون سی نوع افضل ہے، بعض علماء نے صنعت کو افضل قرار دیا ہے، لیکن بہت علماء نے کہا ہے کہ تجارت افضل ہے اور بعض علماء نے کہا کہ زراعت افضل ہے۔
علامہ ماوردیؒ فرماتے ہیں: یہ بات حق کے زیادہ قریب ہے کہ زراعت بہتر اور افضل ہے (صنعت و تجارت کے مقابلے میں) کیوں کہ یہ توکل کے زیادہ قریب ہے اور رب تعالیٰ توکل کرنے والوں کوپسند فرماتے ہیں۔
بہر حال کسب حال کے مذکورہ صدر تینوں طریقے مستحسن ہیں اور صحابہ کرامؓ ان تینوں طریقوں پر عمل پیرا رہے، اکثر انصاری صحابہؓ کسان تھے اور باغات والے تھے یعنی وہ زراعت کا کام کرتے تھے۔ اسی طرح بہت سے صحابہؓ خصوصاً مہاجرین کا پیشہ تجارت تھا، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓاور حضرت عثمانؓ تاجر تھے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More