حضرت امام محمد غزالیؒ نے لکھا ہے کہ ایک بار حضرت شیخ ابو سعیدؒ صوفیائے کرام کی ایک جماعت کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ جہاں سنڈاس (پاخانہ) کو صاف کیا جا رہا تھا۔ راستہ اس نجاست کی وجہ سے بہت خراب تھا، ہر جانب بدبو ہی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ سب صوفیائے کرام وہاں رک گئے اور اپنے اپنے ناکوں اور منہ پر کپڑے وغیرہ رکھ کر ادھر سے ادھر منتشر ہوگئے، لیکن حضرت شیخؒ وہاں کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ اے لوگو! تمہیں کچھ معلوم ہے کہ میرے جسم (یعنی پیٹ) کی نجاست و گندگی مجھ سے اس وقت کیا کہہ رہی ہے؟
سب نے دریافت کیا کہ حضرت آپ خود ہی بتائیں کہ کیا کہہ رہی ہے؟ حضرت شیخ نے جواب دیا: وہ کہتی ہے کہ کل میں بازار میں تھی، یعنی صاف ستھری دکان پر پھلوں، اناج، دودھ اور مٹھائی وغیرہ کی صورت میں خوب آراستہ تھی۔ لوگ اپنا روپیہ پیسہ بڑے شوق و ذوق سے خرچ کرکے مجھے حاصل کر رہے تھے اور میں صرف ایک ہی رات یا دن تمہارے پیٹ میں رہ کر اس حالت کو پہنچ گئی ہوں۔
اب تو یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں تم سے پرہیز و نفرت کروں، لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ تم ہی لوگ مجھ سے نفرت کرکے ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہو، حقیقت یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں عاجز اور بے کس ہے۔ ذرا گہرائی میں جا کر اگر انسان کی خوبصورتی اور حسن و جمال پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ نجاست کے ایک ڈھیر پر سفید کپڑا کس دیا گیا ہے۔
اگر اس کو ایک دو دن صاف نہ کرے تو وہ ایسی گندگی و غلاظت سے بھر جاتا ہے کہ وہ خود اپنے سے متنفر ہو جاتا ہے۔ اس کے بدن سے بدبو آنے لگتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر ہر وقت گندگی چھپی رہتی ہے اور وہ اسے لئے ہوئے گھومتا پھرتا ہے، پھر اسے غرور و تکبر ہو گز نہیں کرنا چاہیے، پس انسان کو اپنی ذات کو پہچاننے کیلئے اتنی ہی کافی ہے۔ (بحوالہ کیمیائے سعادت ص 81-80)
ایک شاعر نے کہا ہے
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہئے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
٭٭٭٭٭