ہماری امت کے نیک لوگ جب حج کی ادائیگی کے لیے جاتے تو ان کی کیفیت بڑی عجیب وغریب ہوتی۔ وہ اس احساس کو دل میں بسا کر عازم کعبہ شریف ہوتے کہ وہ رب العالمین کی بارگاہ میں حاضری کے لیے جا رہے ہیں اور اپنا تن من دھن اس میں لگا دیتے۔ ان کے خشوع، خضوع، اخلاص، تقویٰ، توکل، صبر، شکر اور محنت و کوشش کا کیا حال ہوتا تھا۔ ان سطور میں آپ کو ایسے ہی چند واقعات سنائیں گے۔ وہ جب اپنی پوری جسمانی اور روحانی قوتیں اس کام میں لگا دیتے تھے تو رحمت الٰہی اور مغفرت الٰہی آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتی تھی۔
یہ ہجرت کا دسواں سال تھا۔ اس سال نو ذو الحج کو جمعہ کا دن تھا۔ عرفات کے میدان میں صحابہ کرامؓ کا جم غفیر جمع تھا۔ آج میدان عرفات ایک ایسا منظر دیکھ رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر عظمت والا، تقویٰ والا، جلالت وشان والا موقع نہ اس میدان پر پہلے کبھی آیا نہ بعد میں کبھی آئے گا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد اجتماع تھا۔ رسول اقدسؐ اس مجمع کی قیادت فرما رہے تھے۔ میدان عرفات صحابہ کرامؓ کی دعاؤں اور التجاؤں سے تھرتھرا رہا تھا۔ رحمت الٰہی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پورے جوش میں تھا۔ ارد گرد کی وادیاں ان موحدین کے نغموں سے گونج رہی تھیں۔ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی آہیں اور سسکیاں عرش الٰہی کو جنبش دے رہی تھیں۔ رسول اقدسؐ بھی پورے خشوع و خضوع سے اپنے رب سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ پھر آپ جبل رحمت پر چڑھے اور ایک لاکھ چالیس ہزار کے عظیم الشان مجمع سے خطاب فرماتے ہیں۔ تمام لوگ اپنی تمام تر توجہ آپؐ کی زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر ہے، جو خدا کے آخری نبیؐ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ارشاد فرما رہے ہیں۔ آپؐ کے کلمات خدا کی قدرت سے کانوں سے پہلے دلوں تک پہنچ رہے ہیں۔ اگرچہ مجمع بہت بڑا تھا اور موقع بہت اہم تھا، وہاں کوئی لاؤڈ اسپیکر بھی نہیں تھا۔ یہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کرشمہ تھا کہ زبان نبوت سے نکلنے والے الفاظ کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتی ہوئی ہوائیں انہیں اپنے دوش پر اٹھا کر ہر شخص کے کانوں تک پہنچا رہی تھیں اور پیاسے دلوں کو ارشادات نبوت سے سیراب کررہی تھیں۔
اسی تاریخی موقعے پر رسول اقدسؐ پر قرآن کریم کی ایک عظیم آیت کا نزول ہوتا ہے۔ یہ آیت ایک قیمتی موتی اور خدا کا عظیم احسان تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس آیت کریمہ میں رسول اقدسؐ کی اس دار فانی سے روانگی کا بھی اشارہ تھا۔ اس اشارے کا مطلب اہل فہم و الہام سمجھ گئے تھے۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو بطور طرز زندگی پسند کر لیا۔‘‘ یہ آیت کریمہ سنتے ہی فاروق امت سیدنا عمر بن خطابؓ تڑپ اٹھتے ہیں، ان کا بدن کانپ اٹھتا ہے اور آنسوؤں کی کثرت کے باعث آواز گلے میں اٹک جاتی ہے۔ آپؓ کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے ۔
حیرت کی بات ہے! اتنی شاندار، خدا کے احسان اور مسلمانوں کے لیے خوشخبری سے بھرپور آیت سن کر عمر فاروقؓ نے رونا شروع کردیا۔ اس آیت میں رلانے والی کون سی بات ہے۔ رسول کریمؐ آہستہ سے اپنے ساتھی عمر فاروقؓ سے پوچھتے ہیں: ’’تمہیں کس چیز نے رلا دیا عمر؟‘‘ عرض کی: ’’حضور! آج سے پہلے ہمیں گاہے بگاہے دین کا کچھ نیا حصہ ملتا رہتا تھا، مگر اب جب کہ دین مکمل ہو گیا تو کوئی بھی چیز جب درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے تو پھر اس میں نقص واقع ہونا شروع جاتا ہے۔‘‘
فاروق اعظمؓ کی عبقریت کے کیا کہنے! آپؓ کی فقاہت وعلمی رسوخ کی کیا بات ہے۔ آپؓ تو ان شخصیات میں سے ہیں جو پردے کے پیچھے چھپے ہوئے حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تھے۔ رسول اقدسؐ عمر فاروقؓ کی نجابت وذہانت کی تحسین فرماتے ہیں۔ آپؐ ان کی علمی لیاقت اور فقہی صلاحیت سے حیران ہیں۔ فرمایا: ’’تم سچ کہتے ہو عمر!‘‘ ہاں خدا کی قسم! آپ نے سچ فرمایا۔ دین میں جس نقص کا آپؓ نے خدشہ ظاہر کیا تھا وہ واقع ہو کر رہا۔ ابن جریرؒ کہتے ہیں: اس خطبہ حج کے بعد نبی کریمؐ صرف اکیاسی راتیں اس دنیا میں رہے اور پھر اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے۔ آپؐ کے دنیا سے جانے کے بعد اس دین میں جو نقص واقع ہوا، اس کی تلافی آج تک نہیں ہو سکی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post