بڑے جانور میں شریک ہونے والے خریدنے سے پہلے شریک ہو جائیں اور پھر جانور خریدیں تو یہ احوط (زیادہ احتیاط) اور افضل ہے اور اسی حکم میں یہ صورت بھی ہے کہ خریدنے والا اس نیت سے خریدے کہ ایک حصہ یا دو حصے میں اپنی قربانی کے لیے رکھوں گا اور باقی حصوں میں دوسروں کو شریک کر لوں گا، یہ بھی جائز ہے، لیکن اگر اس نے بغیر کسی نیت کے خرید لیا اور بعد میں دوسروںکو شریک کرلیا تو اس کے جواز میں اختلاف ہے، لیکن راجح جواز ہے۔
قربانی کے جانور میں اگر کوئی ایسا شخص شریک تھا، جس پر قربانی واجب تھی اور وہ پھر ذبح سے پہلے شرکت سے علیحدہ ہو گیا اور دوسرا آدمی اس کی جگہ شریک ہوگیا تو قربانی ہو جائے گی اور جس پر قربانی واجب نہ تھی، وہ اگر ذبح کرنے سے پہلے علیحدہ ہو جائے تو اس پر قربانی واجب رہ گئی اور اس جانور کے دوسرے شرکاء کی قربانی بھی درست نہ ہوگی۔
گائے (بڑے جانور) میں عقیقہ کی نیت سے کئی آدمی شریک ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ تمام شرکاء کی نیت قربانی یا عقیقہ کی ہو، بعض شرکاء قربانی کی نیت سے اور بعض عقیقہ کی نیت سے بڑے جانور میں شریک ہو سکتے ہیں۔ دوسری شرط یہ بھی ہے کہ کسی شریک کا حصہ ساتویں 1/7 سے کم نہ ہو۔
جس پر قربانی واجب ہو اور جو قربانی نفلی کرے دونوں (ایک بڑے جانور میں) شریک ہو سکتے ہیں۔ بعض نے قربانی کے لئے اور بعض نے ولیمہ کے واسطے ایک ہی جانور میں حصہ خریدا ہو (شرکت کی ہو) تو یہ سب درست ہے۔
سات آدمیوں نے مل کر ایک جانور خریدا، پھر معلوم ہوا کہ ایک کی نیت گوشت فروخت کرنے کی ہے تو اس کا حصہ اور کوئی قربانی کرنے والا خرید لے، اس کو اپنے ساتھ سے نکال دے، اس کے بعد قربانی کی جائے، ورنہ سب کی قربانی خراب ہو جائے گی، کسی کی بھی درست نہیں ہوگی۔
ولیمہ مسنونہ کی نیت سے قربانی کے جانور میں حصہ لینے سے کسی کی قربانی باطل نہیں ہوگی، جس طرح عقیقہ کی نیت سے حصہ لینے سے باطل نہیں ہوتی ہے۔
سات آدمی ایک بڑے جانور میں قربانی کی غرض سے شریک ہوئے، اس گائے کی قیمت دس ہزار روپے ہے، اب اگر اس قیمت میں سات حصوں پر مساوات فی تقسیم کا لحاظ کیا جائے تو کسر میں دشواری درپیش ہے، اگر کوئی شریک دوسرے کی طرف سے کوئی پیسہ زیادہ دیدے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔
گھر میں ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے، ایک کی قربانی سب کی طرف سے کافی نہیں ہو سکتی، اگر بکرے کی قربانی گراں گزرتی ہے تو بڑے جانور کی قربانی کی جائے اور گوشت کا (بلاوجہ) دفن کرنا جائز نہ ہوگا کہ اضاعت مال ہے۔
ایک عورت مالک نصاب نہیں، لیکن اس کا مہر نصاب سے زیادہ شوہر کے ذمہ ہے جو ابھی نہیں مل سکتا ہے تو عورت اس مہر کی وجہ سے مالدار یعنی صاحب نصاب شمار نہیں ہوگی اور اس پر قربانی واجب نہ ہو گی۔
نصاب والا زکوٰۃ دے کر اگر اس کا مال کم رہ جائے تب بھی قربانی واجب ہے۔
واجب قربانی میں چونکہ دوسرے کے ذمہ ادائے واجب کا قصد ہوتا ہے وہ تو بغیر اس کی اجازت کے جائز نہیں، البتہ اپنے متعلقین کی طرف سے بغیر ان کی اجازت کے بھی درست ہے، جب کہ ان کی طرف سے قربانی کرنے کی عادت ہو اور اگر قربانی کرنے کی عادت نہ ہو تو ان کی طرف سے بھی قربانی درست نہ ہو گی، ذبح کرنے والے کی طرف سے صحیح ہو جائے گی اور اگر دوسرے کی طرف سے تبرعاً تطوعاً بغیر اجازت کے قربانی کی جائے تو وہ مطلقاً درست ہے خواہ اس کی طرف سے قربانی کی عادت ہو یا نہ ہو اور اس کو عادت کی اطلاع ہو یا نہ۔ کیونکہ تبرعاً عن الغیر میں قربانی ذابح کی ملک پر ہوتی ہے، دوسرے کو محض ثواب پہنچتا ہے، قربانی اس کی ملک پر نہیں ہوتی۔
سات افراد نے شریک ہوکر ایک گائے (یا کوئی بڑا جانور) قربانی کے لیے خریدا اور قربانی کرنے سے پہلے ان میں سے ایک شخص مر گیا، مگر میت کے ورثا نے ان شرکا کو اجازت دیدی کہ تم اس (میت) کی اور اپنی طرف سے قربانی کرو، پس اگر وہ ان کی اجازت سے میت اور اپنی طرف سے قربانی کریں تو درست ہوگی اور سب کی قربانی ادا ہو جائے گی اور اگر اس مردہ کے ورثا کی اجازت کے بغیر قربانی کریں تو درست نہ ہوگی اور کسی کی بھی قربانی ادا نہ ہوگی۔
اگر کوئی صاحب نصاب قربانی کے ایام میں انتقال کرجائے تو اس سے قربانی کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭