سیدنا عمر فاروقؓ کے بڑے بھائی حضرت زید بن خطابؓ آپؓ سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے، مکہ مکرمہ میں استقامت کے پیکر بن کے رہے، بعد ازاں ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آگئے۔ حضور اقدسؐ نے آپؓ اور حضرت معن بن عدی انصاریؓ کے درمیان رشتہ اخوت قائم فرمایا۔
دور صدیقیؓ میں جھوٹے مدعی نبوت، مسیلمہ کذاب کے ساتھ جو تاریخی معرکہ یمامہ کے میدان میں ہوا، اس روز سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ تھے۔ انصار کا جھنڈا حضرت ثابت بن قیسؓ کے ہاتھ میں اور مہاجرین کا جھنڈا سیدنا زید بن خطابؓ کے ہاتھوں میں تھا۔
نہار بن غنفوہ نام کا ایک شخص جوکہ پہلے تھوڑا عرصہ ایک منافق کے روپ میں مدینہ منورہ رہ چکا تھا، پھر آکر مسیلمہ کذاب کے ساتھ مل گیا اور لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرنے لگا کہ حضورؐ نے (نعوذ باللہ) مسیلمہ کذاب کو اپنی نبوت میں شریک کر لیا تھا۔
یہی شخص جنگ یمامہ میں آکر مجاہدین ختم نبوت، صحابہ و تابعین و غیرہم کو للکارنے لگا ’’کون ہے جو میرے مقابلے میں آئے؟‘‘ کفر کے اس نمائندے کو گرانے کیلئے اسلام کا شیر جو سب سے پہلے میدان میں اترا، وہ حضرت زید بن خطابؓ ہی تھے۔
آپؓ نے جلد ہی اسے ٹھکانے لگا دیا۔ بلند جذبے کے ساتھ خود بھی لڑتے رہے اور اپنے ساتھیوں کو بھی حوصلہ فراہم کرتے رہے، بالآخر اسی میدان میں جام شہادت نوش کرکے اپنے رب سے جا ملے۔
ان کی وفات سے حضرت عمر فاروقؓ کو بہت گہرا صدمہ پہنچا، آپؓ اکثر ان کو یاد کیا کرتے تھے۔ ایک روز آپ حضرت متمم بن نویرہؓ کے پاس بیٹھے تھے، ان کے بھائی کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ پوچھا تمہیں اپنے بھائی کا کس قدر غم ہے؟ وہ بولے ’’میں تو اس کے صدمے میں رو رو کر آنکھوں کی بینائی لٹا چکا ہوں، آنسو ہیں کہ تھمتے ہی نہیں‘‘۔
انہوں نے اپنے بھائی کی یاد میں طویل مرثیہ بھی کہا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ بھی غمگین لہجے میں بولے: ’’کاش میں اشعار کہنے پر قادر ہوتا، اس پر ایسے مرثیہ خواں ہوتا، جیسے تم اپنے بھائی پر ہوئے۔‘‘
حضرت متممؓ نے آپؓ کو حوصلہ دلاتے ہوئے کہا ’’اگر میرا بھائی یوں جام شہادت نوش کرتا تو میں اس کی جدائی میں ایک آنسو بھی نہ بہاتا۔‘‘
اس بات سے سیدنا عمرؓ کو بہت حوصلہ ہوا، لیکن سیدنا زیدؓ جیسا شخص ایسا نہیں تھا کہ اسے بھلایا جاسکے۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے:
’’بے شک یہ بادصبا جب بھی چلتی ہے میرے بھائی زید کی خوشبو اڑا لاتی ہے‘‘۔
(واضح ہو کہ شریعت میں بین اور نوحہ کو پسند نہیںکیا گیا، لیکن آنسو بہانے پر کوئی روک ٹوک نہیں، اس لئے کہ جب صدمہ پہنچتا ہے اور دل کٹتا ہے تو آنسو روکنا بس میں نہیں رہتا۔)(بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭
Next Post