دنیائے طب حیران رہ گئی

0

شیخ ابراہیم الحازمی (استاذ شاہ سعود یونیورسٹی ریاض) لکھتے ہیں کہ انسان کبھی ایسے حالات میںگرفتار ہوتا ہے، جس سے نکلنا بظاہر ناممکن ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں اس ذات کو سامنے رکھے، جس کی قدرت سے سب کچھ ممکن ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ: ’’جو کوئی خدا پر بھروسہ کرے تو خدا سب پر غالب ہے، بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
ملک شام کے ایک باشندے کی بینائی چلی گئی اور وہ سات برسوں سے فالج کا بھی شکار تھا۔ زمین پر گر گیا تھا، جس سے اس کے سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں۔ وہ گرنے کے بعد کھڑا بھی ہو گیا تھا، تاکہ وہ اپنا جائزہ لے، پھر اس کے ساتھ کیا پیش آیا، ذرا ملا خطہ کیجیے!
وہ اپنا واقعہ خود بیان کرتا ہے:
’’میں گیارہ سال سے شادی شدہ ہوں اور میرے دو بچے ہیں۔ سمیہ دس سال کی اور فراس سات سال کا۔ ایک دن مجھے ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جس کا صدمہ بھی کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ہوا یہ کہ میںکام سے فارغ ہوکر اپنے گھر آرہا تھا کہ اچانک میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور میں اپنی موٹر سائیکل سے نیچے گر گیا۔
وہ کوئی اتنا بڑا حادثہ نہ تھا، کیوں کہ معمولی خراش بھی جسم کے کسی حصے پر نہیں آئی تھی، بلکہ کہیں درد بھی محسوس نہیںہو رہا تھا، یہی وجہ ہے کہ میں اٹھا اور واپس اپنی موٹر سائیکل چلانے لگ گیا، مگر دس منٹ کے بعد ہی مجھے ایسا لگا کہ سر میں کوئی چیز پھٹ رہی ہے اور بائیں آنکھ میں کوئی باریک چیز گھس رہی ہے، میں نے موٹر سائیکل کھڑی کی اور ایک صاحب سے پوچھا:
میری آنکھ میں کوئی چیز تو نہیں ہے، کیوں کہ مجھے چھبن محسوس ہورہی ہے؟‘‘
کہنے لگا: ’’مجھے تو کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔‘‘
میں تیزی سے گھر پہنچا، مجھے یقین ہوگیا کہ دائیں آنکھ کی بینائی ختم ہوگئی ہے۔
انسان اپنے بچاؤ کے لیے جس طرح ظاہری اسباب اختیار کرتا ہے، اسی طرح اس کو چاہیے کہ باطنی اسباب (دعا) کا بھی اہتمام کرے۔ سفر میں ایکسیڈنٹ اور حوادثات سے بچنے کے لیے گھر سے روانہ ہوتے وقت یہ دعا پڑھے:
’’خدایا! ہم تجھ سے اپنے سفر میں نیکی اور پرہیزگاری کی اور جو عمل تجھے پسند ہو اس کی درخواست کرتے ہیں، تو ہمارا یہ سفر ہم پر آسان کر دے اور اس کی مسافت کو طے کر دے، خدایا! تو ہی اس سفر میں ہمارا رفیق اور گھر بار میں ہمارا قائم مقام اور محافظ ہے۔ میں تجھ سے سفر کی سختیوں سے اور سفر میں تکلیف دہ منظر سے اور بیوی بچوں اور مال و منال میں تکلیف دہ واپسی سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (صحیح المسلم، الحج، باب استحباب الذکر اذا رکب، الرقم:1342)
ڈاکٹروں کے پاس گیا اور ان سے علاج کروایا، مگر انہوں نے بھی مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا:
’’ناممکن ہے کہ بینائی واپس لوٹ جائے، کیوں کہ آنکھوں کی مرکزی رگ جس سے دیکھا جاتا ہے، وہ اندر سے پھٹ گئی ہے۔‘‘
دائیں آنکھ کی بینائی کو گئے ہوئے ابھی چار سال کا ہی عرصہ ہوا تھا کہ بائیں آنکھ کی بینائی بھی رخصت ہوگئی، گویا میں مکمل اندھا ہوگیا۔
ابھی اس صدمے سے مکمل باہر نہیں آیا تھا کہ ایک اور صدمے نے ’’شامی نوجوان‘‘ کو آگھیرا اور اس کے دونوں ہاتھوں اور پیروں میں فالج کا حملہ ہوگیا۔ یوں ایک اور مصیبت میں پڑ گیا۔ شام کے تمام ڈاکٹر اور تمام بڑے بڑے اسپتال اس کے علاج سے عاجز آگئے اور تمام طبی رپورٹوں میں اس کی بینائی کے واپس آنے سے صاف صاف معذرت کردی گئی کہ یہ ناممکن ہے، کیوں کہ انتہائی باریک رگ جو بینائی کا کام کرتی ہے، وہی پھٹ گئی ہے۔
وزارت صحت نے اپنے ملک کے تمام ماہر اور اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی رپورٹوں کو یورپ کے بڑے اسپتالوں میں بھیجا اور ان سے مدد طلب کی کہ وہ کوئی اس سلسلے میںپیش رفت کریں اور اس نوجوان کی بینائی کے لیے کچھ کریں، مگر انہوں نے بھی عاجزی ظاہری کردی، یوں یہ نوجوان طب کی دنیا میں لاعلاج اور ہمیشہ کے لیے نابینا قرار دے دیا گیا۔
مگر ذرا اس شامی نوجوان کی بھی سنئے! وہ کیا کہتا ہے کہ اس صبر آزما مرحلے پر اس کی اپنی کیا کیفیت تھی؟
مگر میں مایوس نہیں ہوا، بلکہ میں نے اس طبیب کی طرف ہاتھ اٹھالیا، جو واحد اور یکتا ہے اور ہم سب کا پیدا کرنے والا ہے، جس کے بارے میں سیدنا ابراہیمؑ نے کہا تھا: جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔
عید کی بات ہے کہ میرا بیٹا اور میں کسی دوست کے ہان ملاقات کرنے گئے تھے، رات کو مجھے قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی، میں اٹھا اور چلنے لگا، لیکن اچانک میں زمین پر پیٹھ کے بل گر گیا اور میرا سر کا پچھلا حصہ زمین سے بہت زور کے ساتھ ٹکرایا اور میں نے بہت تکلیف محسوس کی، لیکن خدا کی شان کہ تھوڑی ہی دیر میں میرے دونون ہاتھ جو شل ہو چکے تھے، حرکت کرنے لگے اور میری آنکھوں میں بینائی لوٹ آئی اور میں سب کو دیکھنے لگا اور یہ سب کچھ ایک منٹ سے بھی کم وقت پر ہوا، اس کے بعد میں اپنے ڈاکٹر کے پاس گیا، جس کے پاس میرا علاج ہورہا تھا، میں نے اسے سارا قصہ بیان کیا تو اس کی آواز ہی گنگ ہوگئی کہ طب کی دنیا میں یہ ایک ناممکن سی بات تھی۔
بہر حال اس نے اپنی تسلی کے لئے دوبارہ مجھے چیک کیا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ مجھ سے کہنے لگا:
’’دونوں بند رگیں، بلکہ پھٹی ہوئی رگیں، نہ صرف یہ کہ کھل گئی ہیں، بلکہ ان میں خون بھی دوڑنے لگ گیا ہے۔‘‘
ابو فراس کہتا ہے:
’’اس واقعے نے مجھے زندگی کے ایک نئے دوراہے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھے دنیا مل گئی، اس پر میں اپنے مولا کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے، بے شک وہی ذات ہے جو ہر نا ممکن کو ممکن بنا دیتی ہے۔
اب میں رب تعالیٰ سے اس بات کی دعا کرتا ہوں ’’خدایا! مجھے اتنی ہمت اور طاقت دے کہ میں اپنی بیوی بچوں کی جو اس بیماری کے عرصے میں حق تلفیاں ہوئیں، انہیں پورا کردوں۔‘‘
(راحت پانے والے، مصنف: شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض سعودی عرب)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More