اگر مرحوم نے قربانی کے لیے بکرا خرید رکھا تھا تو بکرا مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوکر ورثا اس کے حق دار ہوگئے ہیں، اب ورثا چاہیں تو اس کی قربانی مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے کر سکتے ہیں، واجب نہیں ہے۔
نابالغ، پاگل، غریب اور مسافر شرعی پر قربانی واجب نہیں، لیکن اگر غریب یا مسافر اپنی طرف سے قربانی کر دے تو جائز ہے اور بڑا ثواب ہے۔ اگر غریب نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اس پر اس جانور کی قربانی واجب ہوگی۔
اگر کسی نے نذر (منت) مانی تو نذر کی وجہ سے اس پر قربانی واجب ہوگئی، خواہ امیر نے نذر مانی ہو یا غریب نے۔ نیز اگر امیر (صاحب نصاب) نے نذر مانی ہو تو اب اس کو دو قربانیاں کرنی ہوں گی، ایک تو منت کی وجہ سے اس نے خود اپنے اوپر واجب کی ہے اور دوسری جو اس پر صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے شریعت نے واجب کی ہے۔
اگر کسی جگہ یہ رواج ہو کہ شوہر اپنی بیوی یا باپ اپنی بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کر دیا کرتا ہے اور بیوی اور اولاد کو بھی یہ بات معلوم ہو تو اس عرف اور رواج کی وجہ سے ان کی طرف سے قربانی درست ہو جائے گی، صریح اجازت لینا ضروری نہیں بلکہ رواج عرفی کافی ہوگا۔ جہاں پر یہ عرف نہ ہو تو واجب قربانی کے لیے صریح اجازت لینا ضروری ہے، ورنہ قربانی واجب ادا نہ ہوگی، نفل قربانی کے لیے اجازت ضرورت نہیں ہے۔
کسی غریب نے جس پر قربانی واجب نہیں تھی، محض اپنی خوشی سے قربانی کر دی اور اس کے بعد قربانی کے ایام میں ہی وہ امیر (صاحب نصاب) ہوگیا تھا، اب اس پر دوسری قربانی کرنا واجب ہے۔
کسی پر قربانی واجب تھی، مگر اس نے ابھی قربانی نہیں کی تھی کہ قربانی کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی وہ صاحب نصاب نہ رہا کہ اس پر قربانی واجب ہو یا مر جائے تو اس سے قربانی ساقط ہو جائے گی۔
سود خور کے ساتھ قربانی میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔
اگر حاجی مسافر ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں، اگر مسافر حاجی اپنی خوشی سے قربانی کرے گا تو ثواب ملے گا۔ اگر حاجی مقیم ہے اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم موجود ہے تو اس پر قربانی کرنا لازم ہوگا۔ حج قران اور حج تمتع کرنے کی صورت میں دم شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے، یہ اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں، اس لئے دونوں کو ایک سمجھنا صحیح نہیں۔ اگر اہل مکہ صاحب نصاب ہیں، تو حج کرنے کی صورت میں بھی ان پر قربانی لازم ہے۔
قربانی کرنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ بقر عید کی نماز کے بعد قربانی کرکے حجامت بنوائے، قربانی نہ کرنے والے کیلئے مستحب نہیں۔ البتہ قربانی کرنے والوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کی صورت میں ثواب سے محروم نہیں ہو گا۔
حلال جانور کے بھی سات اجزاء حرام ہیں، ان کا کھانا جائز نہیں ہے اور وہ یہ ہیں: دم مسفوح یعنی بہنے والا خون، پیشاب کی جگہ (نرو مادہ کی)، خصیے (فوطے)، پاخانے کی جگہ غدود (سخت گوشت)، مثانہ (پیشاب کی تھیلی) اور پِتا۔ کنز اور طحطاوی میں حرام مغز کو بھی حرام لکھا اور وہ دودھ کی طرح سفید ڈوری ہے جو پیٹھ کی ہڈی کے اندر کمر سے لے کر گردن تک ہوتی ہے، اس کو حرام مغز کہتے ہیں۔
جس جانور کے پیٹ میں بچہ ہے، اس کی قربانی صحیح ہے، البتہ جان بوجھ کر ولادت کے قریب جانور کو ذبح کرنا مکروہ ہے، ذبح کے بعد جو بچہ پیٹ سے نکلے، اس کو ذبح کر لیا جائے، اس کا کھانا حلال ہے اور اگر وہ مردہ نکلے تو اس کا کھانا
درست نہیں اور اگر ذبح سے پہلے مر گیا تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اور اگر ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے بچہ کو ذبح نہیں کیا، یہاں تک کہ قربانی کے دن گزر گئے تو اس زندہ بچہ کو صدقہ کردیا جائے اور اگر قربانی کے دن گزرنے کے بعد ذبح کرکے کھا لیا تو اس کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہو گا اور اگر بچہ کو پال لیا اور بڑے ہونے کے بعد قربانی کردی تو اس کی واجب قربانی ادا نہیں ہوگی، اور اس کا پورا گوشت صدقہ کرنا واجب ہوگا، اگر اس آدمی پر قربانی واجب ہے تو اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی لازم ہوگی۔
خارش والے جانور کی قربانی درست ہے، لیکن اگر خارش کی وجہ سے بالکل کمزور ہوگیا ہو یا خارش کھال سے گزر کر گوشت تک پہنچ گئی ہو تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔ اگر بھیڑ، بکری اور دنبی کے ایک تھن سے دودھ نہ اترتا ہو تو ان کی قربانی درست نہیں، کیونکہ یہ عیب دار جانور ہے اور عیب دار جانور کی قربانی کرنے سے قربانی درست نہیں ہوتی۔ اگر بھینس، گائے، اونٹنی وغیرہ کے دو تھنوں سے دودھ نہ اترتا ہو تو ان کی قربانی درست نہیں۔ اونٹنی، گائے، بھینس کے اندر ایک تھن خشک ہو جانے پر تو قربانی جائز ہوتی ہے، لیکن دو تھن خشک ہو جائیں یا کٹ جائیں تو قربانی جائز نہیں۔ جس جانور کا تھن کٹا ہوا ہو یا اس طرح زخمی ہو کہ بچہ کو دودھ نہ پلا سکے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ جس جانور کے تھن خشک ہوگئے ہوں، اس کی قربانی درست نہیں۔ جس جانور کا تھن ہی نہیں، اس کی قربانی درست نہیں۔
ذبح کے وقت اس بات کا پورا اہتمام کیا جائے کہ جانور کو تکلیف کم سے کم ہو، اس لئے یہ حکم دیا کہ چھری کو تیز کرے، اور ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے اور حلقوم وغیرہ پورا کاٹے تاکہ جان آسانی سے نکل جائے اور جانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔ اگر جانور خریدنے کے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی، بعد میں قربانی کرنے کی نیت کی تو اس جانور کی قربانی لازم نہیں ہوگی۔
قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے، تاکہ اس سے محبت ہو اور محبوب جانور کو قربان کرنے سے ثواب زیادہ ملے۔اگر صاحب نصاب آدمی نے قربانی کے لئے جانور خریدا اور جانور گم ہوگیا اور اس نے قربانی کے لئے دوسرا جانور خریدا، قربانی کرنے سے پہلے گم شدہ جانور بھی مل گیا، اب اس کے پاس کل دو جانور ہوگئے، تو اس صورت میں دونوں جانوروں میں سے کسی ایک جانور کی قربانی کرنا واجب ہے، دونوں کی نہیں، البتہ دونوں جانوروں کی قربانی کردینا مستحب ہے۔لیکن اگر کسی غریب نے ایسا کیا تو اس پر دونوں جانوروں کی قربانی کرنا واجب ہوگا، کیونکہ غریب پر قربانی واجب نہیں تھی، قربانی کی نیت سے جانور خریدنے کی وجہ سے قربانی واجب ہوگئی، جب دو جانور اس نیت سے خریدے تو دونوں کی قربانی لازم ہو گی۔ (جاری ہے)
Next Post