رازی صاحب! حقیقت کچھ اور ہے

0

محمدصادق

اخبار ہٰذا مورخہ 30 جولائی 2018ء (14 ذی القعدۃ) کی اشاعت میں محترم مولانا محمد ولی رازی صاحب کا مضمون ’’متوازن تقریر‘‘ پڑھ کر ابتدائی لمحے میں یہ خیال آیا کہ یہ مضمون شاید کسی اور نے لکھا ہے؟ لیکن فوراً ہی تسلی ہوئی کہ جناب وہی شخصیت ہیں جو ’’روشن جھروکے‘‘ کے عنوان کے تحت عموماً دینی اور اخلاقی پہلو رکھنے والے مضامین لکھتے ہیں اور ایک عالم دین اور سلجھے ہوئے قلم کار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
موصوف نے اپنے مضمون کا مقصد عمران خان کی متوقع یا مستقبل کے وزیر اعظم کی حیثیت سے میڈیا پر کی جانے والی پہلی تقریر اور اس کے مندرجات پر ’’حق بات پر اظہار‘‘ کرنا بتایا ہے۔ تمہیدی طور پر ’’نظریاتی اختلاف پر حقائق کی روشنی میں تنقید‘‘، ’’بہتان‘‘ اور ’’اچھی بات کا بلا مبالغہ اقرار‘‘ کو اسلام کا زریں اصول گردانتے ہوئے حقیقت خود ہی بتا دی کہ ’’عمل کے بغیر اچھی بات کچھ نہیں۔‘‘ ساری دنیا میں اچھائی کی باتوں کو زیادہ تر ’’عمل‘‘ کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ اچھی باتوں سے انسان اچھائی کے ’’امکان‘‘ میں تو ہوتا ہے، لیکن ان پر عمل بھی ہو تو وہ اچھائی پھر ’’عین الیقین‘‘ والی بات بن جاتی ہے، جس سے اس انسان کی شخصیت اور کردار معاشرے میں نہ صرف نمایاں ہو جاتا ہے، بلکہ وہ ’’وقت کی گواہی‘‘ بن جاتا ہے۔ کیا میں موصوف سے پوچھ سکتا ہوں کہ جس گندے اور سڑے ہوئے نظام کے تحت انتخابی نتائج کے اعتبار سے عمران خان ’’فاتح‘‘ بنے ہیں، اس نظام پر آپ نے اظہار حق کیا؟ اس حوالے سے عوام و خواص سے ’’اپیل‘‘ کی، چونکہ اس نظام میں کوئی فلاح نہیں، لہٰذا اس کے خلاف دستوری جہاد کریں۔ موجودہ انتخابات پر اکیس (21) ارب کے اخراجات کا تخمینہ ہے۔ (عام انتخابات پر 20 ارب اور ضمنی انتخابات پر بقول الیکشن کمیشن ایک ارب کے مزید اخراجات) اس اسراف پر ہی چند جملے لکھ دیئے ہوتے۔ کیسی جمہوریت ہے کہ 70 سال سے تجربات سے گزر رہی ہے اور کم و بیش تین سو پچاس (350) رجسٹرڈ جماعتیں اسلام اور پاکستان کی ترقی کیلئے زور لگا رہی ہیں، مگر پیش قدمی صفر ہے اور بقول مدیر امت اخبار تقریباً دس کروڑ رائے دہندگان میں سے عمران خان کو ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ووٹ ڈال گئے، کل ووٹوں کا 16.8 فی صد لے کر حکمران بن جائے، یا للعجب!
عمران کی تقریر میں رسماً کی جانے والی باتوں کو آپ نے ان کے ’’عزائم‘‘ میں شمار کیا ہے، جو ہر حکمران کرتا ہے اور ظاہر ہے سیاسی تقریر اور قوم سے خطاب میں فرق ہوتا ہے۔ عمرماً کوئی بھی حکمران قوم سے خطاب میں اپنے سیاسی مخالفین کو نہیں للکارتا، نہ کوئی گانا گاتا ہے اور نہ ہی کسی بازاری لہجہ (Vulgon Tone) میں اپنے منشور کی خوشنمائی بیان کرتا ہے، قوم سے خطاب میں چہرے پر متانت اور سنجیدگی بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ رہا قومی لباس میں تقریر کرنا تو خاص تقریر والے ہی دن عمران اس لباس میں نہیں آئے، بلکہ قوم ان کو ایک عرصے سے اسی لباس میں دیکھ رہی ہے، اس لئے اس کو ’’مغربی اور مسلم دشمن قوتوں کیلئے خاموش پیغام‘‘ کہنا محض مبالغہ آرائی ہے۔
قومی زبان میں تقریر اچھی بات ہے، لیکن اردو کو بطور ’’قومی اور سرکاری زبان‘‘ نافذ کرنے کا ’’عزم‘‘ ان کے منشور میں ہے؟ مدینہ جیسی ریاست اور اس کی سادہ معاشرت کی باتیں بھی محض خواب و خیال کی باتیں ہیں۔
کیا ایسی ریاست کا قیام ایسے حکمران کے ہاتھوں ہوگا، جس کی شخصیت و کردار ماضی اور حال کے آئینے میں داغدار ہو، بلکہ مستقبل کے حوالے سے کسی تسلی بخش کردار کا کوئی قرینہ بھی نہ نظر آرہا ہو؟ ’’قیاس کن ز گلستان من ہار مرا‘‘ کے تحت تازہ مثال آپ کے سامنے ہے۔ ان سطور کے تحریر کئے جانے تک نہ کوئی وزیراعظم بنا ہے اور نہ ہی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری ہوئی ہے، لیکن ’’غیر آئینی اور غیر قانونی پروٹوکول‘‘ کا تاج عمران کے سر پہ رکھ دیا گیا ہے۔ بنی گالہ کی رہائش گاہ کی سیکورٹی کے نام پر عام لوگوں کے راستے مسدود اور محدود کرکے لوگوں کو ایک ذہنی اذیت سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ہونے والے اخراجات کو آپ کیا کہیں گے؟ ہونہار بروے کے چکنے چکنے پات! سادہ معاشرت کی بڑھک یا مدینہ کی ریاست جیسی طرز زندگی کا خود فریب پس منظر؟ موصوف نے پہلے اعلان کیا کہ اپوزیشن جو حلقے چاہے کھلوا دے، جب یہ کام شروع ہوا تو موصوف نے اور ان کی جماعت نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔ حضرت تقریریں تو بھٹو اور یحییٰ بھی بہت اچھی کرتے تھے، لیکن ملک توڑنے والے بھی وہی تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں عمران کے غیر دینی نظریات پہ لکھتا رہا ہوں، چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے ہی نظریات کے حوالے سے عمران کو نصیحت آموز مشورے دیتے۔ رہا انتخابی نتائج کو ’’تقدیر کا فیصلہ‘‘ سمجھ کے قبول کرنا تو عوام نے عموماً یہی سمجھ کے اس دعا اور توقع کے ساتھ قبول کیا ہے کہ شاید اب کچھ بہتری آجائے، لیکن یہ کام تو ستر برس سے ہو رہا ہے۔ ہر بار نتیجہ پہلے سے بدتر ہوتا ہے، کیونکہ ہر بار نتیجہ کسی ان دیکھی طاقت کے زور بازو سے بدل دیا جاتا ہے۔ جب حکومت ختم ہو جاتی ہے تو پھر لوگ آپس میں پوچھتے ہیں کہ یہ فیصلہ عوام کا تھا، مقتدر حلقوں کا تھا یا تقدیر کا؟ کہ یہ آنے والا وقت پچھلے اور گزرے وقت سے بدتر ثابت ہو رہا ہے۔ اس قوم کی پیشانی پر صاف لکھا نظر آرہا ہے کہ ’’بے شک انسان خسارے میں ہے‘‘۔ ہم دلدل کو roat out کرنے کے بجائے اس میں بیٹھ کر طہارت حاصل کرنے کی جستجو میں ہیں۔ خدا ہی رحم کرے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More