ڈونالڈ ٹرمپ کے زیر صدارت امریکی انتظامیہ مسلم دنیا میں پاکستان کے بعد جس ملک کو سب سے زیادہ ہدف بنائے ہوئے ہے، وہ ترکی ہے۔ صدر رجب طیب اردگان کے دور میں ترکی نے جو شاندار ترقی کی ہے اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت مستحکم ہوئی ہے، وہ ٹرمپ انتظامیہ کی نظروں میں خار بن کر کھٹک رہی ہے۔ امریکا کی ترکی سے بڑھتی ہوئی عداوت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ 2023ء سے ترکی میں خلافت عثمانیہ کے دور کا احیا شروع ہونے والا ہے۔ یاد رہے کہ جنگ عظیم اول کے بعد مغربی ممالک نے ایک گھناؤنی سازش کے تحت خلافت عثمانیہ کو ختم کرکے سو سالہ معاہدے کے تخت خلافت کے زیر اثر مسلم ممالک کو آپس میں تقسیم کرکے ان کے وسائل پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس معاہدے کی مدت ختم ہونے میں پانچ سال باقی ہیں، جبکہ ترک صدر عوام سے ملنے والے وسیع اختیارات کے تحت 2023ء تک مسلمان ملکوں کو غیروں کے تسلط سے آزاد کراکے خلافت عثمانیہ میں شامل کرنے کی تیاری کررہے ہیں، جس کا مرکز سو سال قبل کی طرح ترکی ہوگا۔ اگر دنیا کے ستاون مسلم ممالک نے ترک صدر رجب طیب اردگان کا ساتھ دیا تو مسلم نشاۃ ثانیہ کے آغاز سے مسلمان ملکوں کی تقدیر بدلنے لگے گی۔ امریکا کو 2023ء کے بعد اپنی عالمی بالادستی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ چنانچہ دونالڈ ٹرمپ جیسے انتہا پسند، اسلام دشمن اور جنونی صدر کے دور میں امریکی انتظامیہ نے ترکی کے خلاف فیصلوں اور اقدامات کا تیزی سے آغاز کر دیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے اپنے رجحانات تبدیل کرکے مہذب رویہ اختیار نہ کیا تو اس سے دونوں ملکوں کا اتحاد ختم ہو سکتا ہے، جس کے بعد ترکی نئے دوست اور اتحادی تلاش کرنے میں آزاد ہو جائے گا۔ نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ترک صدر رجب طیب اردگان کے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ امریکا ہمارا دیرینہ اتحادی ہے، مگر اس نے جولائی 2016ء میں بعض عناصر کی جانب سے ترکی میں برپا کی جانے والی ناکام بغاوت کی مذمت کی، نہ اس کے ماسٹر مائنڈ فتح اللہ گولن کو گرفتار کرکے ترکی کے حوالے کیا، بلکہ امریکا میں پناہ لینے والے اس باغی رہنما کی پشت پناہی اور سرپرستی کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ترکی میں گرفتار ایک باغی پادری اینڈریو برنسن کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے امریکا ترکی کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔ رجب طیب اردگان نے امریکا پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ شام کی دہشت گرد تنظیم کو اسلحہ دے رہا ہے، جو ترک، شامی اور عراقی عوام کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ ترک صدر نے ہفتے کو ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو شرم آنی چاہئے کہ وہ ایک باغی پادری کی خاطر نیٹو کے اہم اتحادی ملک ترکی سے تعلقات خراب کر رہا ہے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکا سے معاملات بگڑنے کی صورت میں ترکی نئے اتحادیوں کی تلاش شروع کر سکتا ہے۔ ہم امریکی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز ترکی سے درآمد شدہ اسٹیل اور المونیم پر عائد محصول کو دوگنا کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کی وجہ سے ترک کرنسی ’’لیرا‘‘ کی قدر میں بیس فیصد کمی واقع ہوگئی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں یہ بھی کہا کہ لیرا ہمارے مضبوط ڈالر کے مقابلے میں کمزور تھا اور یہ کہ فی الوقت امریکا اور ترکی کے درمیان تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ اس کا ایک سبب تو ترکی میں گرفتار امریکی پادری اینڈریو برنسن ہے، جو ترکی میں دہشت گردی کے ایک مقدمے میں ماخوذ ہے، جبکہ دوسری طرف امریکا میں جلا وطن 2016ء کی بغاوت کے ماسٹر مائنڈ فتح اللہ گولن کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔ ترک حکومت 2016ء میں بغاوت کی منصوبہ بندی اور منظم کرنے والے گولن کو اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ ان معاملات پر ترک صدر رجب طیب اردگان کا امریکا کے خلاف ردعمل بالکل فطری ہے۔ نیٹو کے رکن ممالک امریکا اور ترکی کے درمیان حالیہ اختلافات اور کشیدگی سے فائدہ اٹھا کر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ترکی پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ صدر رجب طیب اردگان کسی کمزور مسلم ملک کے نہیں، بلکہ ایک ابھرتے ہوئے طاقتور ملک کے سربراہ ہیں، جو کسی اسلام دشمن طاقت کا دباؤ قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ اسٹیل اور المونیم پر محصول کو دوگنا کرنے کے امریکی فیصلے اور ترک لیرا کی قدر میں بیس فیصد کمی پر ترکی کسی دباؤ کا شکار نظر نہیں آتا، بلکہ اس نے امریکی اقدامات کا مقابلہ کرتے ہوئے نئے اتحادی تلاش کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ ترک صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے امریکا پر واضح کردیا ہے کہ کسی قسم کی بلیک میلنگ ترک عوام کے عزائم کو متزلزل نہیں کرسکتی۔
دہشت گردوں کو نشان عبرت بنایا جائے
سپریم کورٹ کے حکم پر سانحہ بارہ مئی 2007ء کی تحقیقات سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس کے کے آغا نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ یہ ایک طے شدہ منصوبہ تھا۔ کوئی تنظیم اس کے پیچھے تھی اور لوگوں کو باقاعدہ تعینات کیا گیا تھا۔ پولیس کی جانب سے عدالت میں پیش کی جانے والی تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے مختلف تھانوں میں بارہ مئی کیس کی جو ایف آر درج ہیں، ان کی تعداد چون ہے۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے میئر کراچی وسیم اختر اس کیس میں ضمانت پر رہا ہیں۔ یاد رہے کہ سانحہ بارہ مئی کے موقع پر وہ سندھ حکومت میں مشیر داخلہ تھے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے حکم پر اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے باہر نہ نکلنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا، جس پر الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کو متحرک کیا۔ وسیم اختر نے کراچی کی اہم شاہراہوں پر کنٹینر لگوا کر چیف جسٹس کا استقبال کرنے والوں کو روکے رکھا اور دہشت گردوں نے مورچے بنا کر ان پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں پچاس سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سندھ حکومت میں شامل دہشت گرد گروپ کے خوف سے عدالتیں بھی مظلوموں کی داد رسی نہ کر سکیں۔ اس طرح سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں دو سو انسٹھ محنت کشوں کو زندہ جلانے والے ایم کیو ایم کے دہشت گرد آج تک سزاؤں سے بچے ہوئے ہیں۔ عدالتوں کو ان مقدمات کی جلد از جلد سماعت کرکے وحشیوں کو قرار واقعی سزاؤں سے دوچار کرنا چاہئے تاکہ وہ دہشت گردوں کے لئے نشان عبرت بن سکیں۔