آزادی کی اکہترویں سالگرہ مناتے ہوئے بعض حلقے آج بھی یہی سوال کرتے ہیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کیسا پاکستان بنانا چاہتے تھے؟ ان کا تصور پاکستان کیا تھا اور کیا ہم اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؟ قیام پاکستان کے اسباب، پس منظر، برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قربانیاں اور کرئہ ارض کے سینے پر ابھرنے والی نئی ریاست کے خلاف مقامی اور عالمی سازشیں پوری طرح واضح اور سامنے ہوں تو یہ سوال بالکل بے معنی نظر آتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی بے مثال قیادت میں کس قسم کے پاکستان کیلئے جدوجہد کی تھی۔ مسلم قومیت کو پاکستان کے قیام کی بنیاد قرار دیا جائے یا یہ کہا جائے کہ یہاں اسلامی نظریۂ حیات کے مطابق زندگی گزارنا مقصود تھا، لیکن اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمانان ہند کی تحریک آزادی میں اسلام ایک بنیادی نظریئے کی حیثیت سے شامل تھا اور جب ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااﷲ‘‘ کا نعرہ پورے برصغیر جنوبی ایشیا میں گونجا تو قیام پاکستان کی تحریک میں بجلی کی سی چمک اور تیزی پیدا ہو گئی۔ نتیجہ یہ کہ 1940ء کی قرارداد لاہور (جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا) کے صرف سات سال کے عرصے میں مدینہ منورہ کے بعد دنیا میں اسلامی نظریئے کی بنیاد پر مسلمانوں کی دوسری سلطنت وجود میں آ گئی۔ اس سے زیادہ وطن عزیز کی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی خود پاکستان میں مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے بہت سے نام نہاد دانشور قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے کہ بانی پاکستان اس ملک کو سیکولرازم کی بنیاد پر چلانا چاہتے تھے۔ اسلام اور پاکستان دشمنی پر مبنی اس تصور کا پرچار کرنے میں حیرت انگیز طور پر کراچی کا وہ انگریزی معاصر ہمیشہ پیش پیش نظر آتا ہے جو اپنے صفحہ اول کی پیشانی پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کو سجا کر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس اخبار کی بنیاد قائد اعظم نے رکھی تھی۔ اس اخبار کی جسارت کا عالم یہ ہے کہ اس نے یوم آزادی سے ایک روز قبل اپنے ادارتی نوٹ میں ایک بار پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بابائے قوم محمد علی جناح پاکستان کی اقلیتوں کو مسلمان شہریوں کے برابر حقوق دینا چاہتے تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ریاستی معاملات کو مذہبی اصولوں سے ہٹ کر چلانے کے قائل تھے۔ نظریہ پاکستان کے یہ مخالفین محض ایک تقریر کی بنیاد پر قائداعظم محمدعلی جناح کو ایک سیکولر سیاستدان اور رہنما ظاہر کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے اس حقیقت سے آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ بانی پاکستان نے اپنی کسی تقریر میں ایک مرتبہ بھی سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا، جبکہ ان کی تقریباً تمام تقریروں میں اسلام کا حوالہ لفظی و معنوی طور پر بالکل واضح دکھائی دیتا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے مسلمانوں کا جو قتل عام کیا گیا تھا، اس تناظر میں بھارت کے انتہا پسند اور جنونی ہندوئوں کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ پاکستان میں کسی ایک ہندو کو بھی شاید زندہ نہ رہنے دیا جائے۔ ہندوئوں کے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح کیلئے ضروری تھا کہ وہ پاکستان کی اقلیتوں کو تحفظ اور برابر کے شہری ہونے کا احساس دلائیں، جس کی بنیاد پر دین بیزار عناصر نے قائداعظم کو سیکولر رہنما کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا اور ستر برسوں کے بعد بھی آج تک وہ اسی تاثر کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔ پچیس جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے شفاف یا غیر شفاف ہونے سے قطع نظر، اب یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ ملک کے آئندہ وزیراعظم عمران خان ہوں گے۔ ان کے نظریات، ذاتی کردار اور کئی اقدامات پر اختلاف کی پوری گنجائش موجود ہے، لیکن یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ تحریک انصاف کا اعلان کردہ نیا پاکستان کیسا ہوگا؟ عمران خان مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو مدینہ منورہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کریں گے، جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور جسے عملی شکل قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دی۔ اپنی اس کوشش میں عمران خان اور ان کے ساتھی کس قدر مخلص اور کامیاب ثابت ہوں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم نئے اور پرانے پاکستان کے حوالے سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان اگر پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے میں دس، بیس فیصد بھی کامیاب ہو گئے اور عوام کے مصائب و مسائل کا مداوا ہوگیا تو اس بنا پر اسے نیا پاکستان کہا جا سکے گا کہ یہ ماضی کے لٹیرے، حکمرانوں اور سیاستدانوں سے مختلف ملک نظر آئے گا اور اگر اسے ساڑھے تیرہ سو سال پیچھے لے جا کر فی الواقع مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنا دیا جائے تو اہل وطن اسے ماضی بعید کا پاکستان کہنے میں بھی فخر محسوس کریں گے۔ گیارہ اگست 1947ء سے قبل نومبر 1945ء میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ مجھے آپ کے اس سوال پر سخت افسوس ہوا کہ پاکستان میں کون سا قانون لاگو ہو گا۔ ہمارا ایک اﷲ، ایک رسولؐ اور ایک کتاب ہے۔ یہی مسلمانوں کا قانون ہے۔ اور بس۔ اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور وہاں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا۔ پھر چودہ فروری 1947ء کو شاہی دربار سبی بلوچستان میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے ارشاد فرمایا ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے، جو ہمیں قانون عطا کرنے والے عظیم پیغمبر اسلام (حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) نے دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں‘‘۔ فروری 1948ء میں مسلمانوں سے خطاب میں نہیں، بلکہ امریکی عوام کے نام اپنے ریڈیو پیغام میں آپ نے فرمایا: ’’مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہوگا، جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں، جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوتے تھے۔ ہم اسلام کی مساوات اور انصاف پر مبنی شاندار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انہی سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔‘‘ قائد اعظم نے متعدد مواقع پر واضح کیا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں رکھی جائے گی، وہ سازشی اور منافق ہیں۔ بانی پاکستان کے ایسے سینکڑوں بیانات کے باوجود اگر کوئی انہیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرے تو وہ مسلمان ہونے کے باوجود منافق قرار پائے گا۔ جبکہ یہ بات اٹل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح میں کوئی اور کمزوری یا خامی ہو سکتی تھی، لیکن ان کا بدترین دشمن بھی انہیں منافق کہنے کی ناپاک جسارت نہیں کر سکتا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post