تیمار داری: ایک بھولی ہوئی سنت (حصہ اول)

0

عبدالمالک مجاہد

عصر کی نماز پڑھ کر مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ امام صاحب پر نظر پڑی، وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ میں آگے بڑھا، انہوں نے میرا بازو تھام لیا، باتیں شروع ہو گئیں۔ ہمارے امام مسجد ابو علی احمد الغامدی ریاض کے ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ میں اپنے دفتر کی ساتھ والی مسجد میں ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرتا ہوں۔ کبھی کبھار وقت ہوتا ہے تو میں امام صاحب کے پاس بیٹھ جاتا ہوں۔ مختلف دینی موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ امریکا میں کافی عرصے تک مقیم رہے، وہاں کاروبار کرتے رہے۔ سعودی عرب کے اصلی باشندے ہیں۔ لمبا قد، پتلا جسم، پھرتیلی شخصیت، تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے آتے ہیں۔ بڑے زبردست منتظم ہیں۔ یہ مسجد جامع ہے اور کافی وسیع وعریض ہے۔ مسجد کے ساتھ ایک خوبصورت باغیچہ ہے، جو رات کے وقت مختلف فیملیوں سے بھر جاتا ہے۔ مسجد کے چاروں اطراف کشادہ سڑکیں ہیں، اس لیے پارکنگ کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا، جب بھی آئیں آپ کو آسانی سے پارکنگ مل جائے گی۔
آج ملاقات ہوئی تو میں نے ایک سوال کر دیا: شیخ صاحب! یہ بتائیے کہ آپ رمضان المبارک کے دوران مسجد کے باہر عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کتنی مرتبہ افطاری کرتے ہیں؟ کہنے لگے: میں اذان خود کہتا ہوں اور بازار کا کھانا بھی نہیں کھاتا۔ سفر پر جاؤں تو بھی بازار کا کھانا کھانے سے اجتناب کرتا ہوں۔ بس فروٹ پر گزارہ کرتا ہوں۔ رمضان میں زیادہ تر پانی اور کھجور پر گزارہ کرتا ہوں۔ باتوں کا رخ کھانے کی اعلیٰ کوالٹی سے ہوتا ہوا مریضوں کی طرف چلا گیا۔ ابو علی مجھے بتانے لگے: میں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کینسر میں مبتلا دیکھا ہے۔ اس کا ایک سبب بازار کا کھانا بھی ہے۔ کہنے لگے: میں مہینہ میں ایک مرتبہ لازماً اسپتال جاتا ہوں۔ وہاں مریضوں کی عیادت کرتا ہوں۔ اگر جیب اجازت دے تو اپنے ہمراہ کچھ تحفے بھی لے جاتا ہوں۔ انہیں مریضوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ اسپتال جا کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کن نعمتوں میں زندگی بسر کررہے ہیں اور حق تعالیٰ نے ہمیں کس طرح اپنے فضل و کرم کے سائے میں رکھا ہوا ہے۔ مریضوں کو دیکھو تمہیں خدا یاد آ جائے گا۔ کتنے ہی ایسے ہیں، جنہیں واش روم تک جانے کے لیے دوسرے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
میں ابو علی کی باتیں سنتا چلا جا رہا تھا اور مبہوت تھا کہ میں نے اس خیر کے کام کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں کی۔ یہ درست ہے کہ اگر میرا کوئی دوست یا رشتہ دار بیمار ہوتا ہے، تو میں اس کی عیادت کے لیے اس کے گھر یا اسپتال جاتا ہوں، مگر اس طرح پروگرام بنا کر روٹین کے ساتھ اسپتال جانا کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ ابو علی نے ایک اور بڑی اہم بات بتائی کہ میں جب وارڈ میں داخل ہوتا ہوں تو ایک نظر ایسے مریضوںپر ڈالتا ہوں جن کی عیادت کے لیے کوئی نہیں آیا ہوتا۔ ان میں بعض اجنبی ہوتے ہیں۔ بعض ایسے مریض ہیں جن کو اسپتال میں داخل ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ ان کے اعزہ و اقارب روزانہ نہیں آ سکتے۔ اپنے کاروبار یا کاموں میں مصروف ہیں۔ ایسے مریض تیمار داری کے لیے آنے والوں کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔ میں ان کے پاس جاتا ہوں، ان کو سلام کہتا ہوں۔ چہرے پر مسکراہٹ لاتا ہوں۔ ہاں بھئی کیا حال ہے؟ ان شاء اللہ ٹھیک ہو جاؤ گے۔ انہیں تسلی دیتا ہوں۔ بتائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ مریض تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کوئی اس کی دلجوئی کرے۔
ابو علی اور میں کتنی ہی دیر تک اس اہم موضوع پر گفتگو کرتے رہے۔ یہ ایک سراسر ایمانی مجلس تھی۔ ہم نے مریض کی تیمارداری کے حوالے سے کتنی ہی احادیث ایک دوسرے کو سنائیں۔ آپس میں طے پایا کہ کسی روز مل کر اسپتال جائیں گے اور مریضوں کی تیمار داری کریں گے۔ مسجد سے اٹھا تو خاصی دیر تک سوچتا رہا کہ بعض سنتوں سے ہم کتنے غافل ہیں۔ مجھ سمیت ہم میں سے کتنے ہیں، جو سال میں ایک مرتبہ ہی سہی، کسی اسپتال میں عام مریضوں کی عیادت کے لیے جاتے ہوں۔
قارئین کرام! آئیے تھوڑی دیر کے لیے ہم جنت کے باغیچوں میں چلتے ہیں، جہاں کتنے ہی مریض ہمارے منتظر ہیں کہ ہم ان کی صحت کے بارے میں پوچھیں۔ ان کی درد بھری داستانیں سنیں۔
جس دین کو ہم ماننے والے ہیں، اس کی بے شمار خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ دین آپس میں محبت اور پیار سکھاتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی، نیکی اور حسن سلوک کا علمبردار ہے۔ رسول اقدسؐ نے اپنی امت کی اس سلسلے میں بے حد رہنمائی فرمائی ہے۔ ایک حدیث شریف جس کے راوی سیدنا ابو ہریرہؓ ہیں، اس میں نبی اکرمؐ نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: حضور! وہ کونسے حقوق ہیں؟ ارشاد ہوا: جب ملاقات کرو تو ایک دوسرے کو سلام کہو۔ جب مسلمان دعوت پر بلائے تو اسے قبول کرو۔ جب آپ سے نصیحت طلب کرے تو اسے اچھی نصیحت کرو۔ جب چھینک مارے اور ’’الحمدللہ‘‘ کہے تو اس کا جواب دو۔ یعنی اسے ’’یرحمک اللہ‘‘ کہو ۔ جب بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرو اور جب فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ میں شرکت کرو۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More