ایک شخص جنگل میں بھیڑوں کو اکیلے چرتا ہوا چھوڑ کر خود کسی کام کے واسطے شہر میں آگیا۔ جہاں اتفاق سے بڑا بھائی اس کو مل گیا۔ اس نے دریافت کیا کہ جنگل میں بھیڑوں کو کس کے حوالے کر کے آئے ہو؟ اس نے کہا: توکل برخدا یعنی خدا کے بھروسے پر چھوڑ آیا ہوں۔
بڑے بھائی نے کہا: تم نے سخت غلطی کی۔ چھوٹے نے کہا: خدا کے توکل پر بھیڑوں کو چھوڑ آنے کو غلطی بتلانا سخت بے ادبی و گستاخی ہے۔ ایسا مت کہو۔ بڑے بھائی نے کہا کم بخت اگر بھیڑیں خدا کے توکل پر چھوڑ آیا ہے تو بھیڑیئے بھی تو خدا کے توکل ہی پر پھر رہے ہیں۔ تم نے توکل کے مفہوم کو نہایت غلط طور پر سمجھا ہے۔ توکل اختیار کرتے وقت حضور اقدسؐ کے مبارک فرمان کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔
(محزن اخلاق ص 445 مولانا رحمت اللہ سبحانی)
توکل کا مفہوم: ارشاد خداوندی ہے۔ ترجمہ: ’’اور جو کوئی ڈرتا ہے خدا سے، وہ کر دے گا (سختیوں میں بھی) اس کا گزارہ اور روزی دے گا اس کو جہاں سے اس کو خیال بھی نہ ہو اور جو کوئی بھروسہ رکھے خدا پر تو وہ اس کو کافی ہے۔‘‘ (پارہ 28 سورۃ الطلاق، آیت 3-2)
یعنی جو شخص خدا پر توکل اور بھروسہ کرے گا، خدا اس کی مہمات کے لیے کافی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عمرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا ہے: اگر تم خدا پر توکل کرتے جیسا کہ اس کا حق ہے تو بے شک خدا تعالیٰ تمہیں اس طرح روزی دیتا، جیسا پرندے اور جانوروں کو دیتا ہے کہ پرندے صبح کو اپنے گھونسلوں سے بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوئے واپس ہوتے ہیں اور بخاری اور مسلم شریف میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ میری امت میں ستر ہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کے اوصاف میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ حق تعالیٰ پر توکل کرنے والے ہوں گے۔ توکل کے معنی یہ نہیں کہ رب تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب و آلات کو چھوڑ دے، بلکہ مراد یہ ہے کہ اسباب اختیاریہ کو ضرور اختیار کرے، مگر بھروسہ اسباب پر کرنے کے بجائے حق تعالیٰ پر کرے کہ جب تک اس کا ارادہ و مشیت نہ ہو جائے، کوئی کام نہیں ہو سکتا ہے۔ (معارف القرآن جلد 8 ص 488)
حدیث شریف میں ہے کہ ایک اعرابی (عرب گنوار یا بدو) سرکار رسالتؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ اونٹ کہاں چھوڑا؟ عرض کیا: خدا کے بھروسہ پر چھوڑ آیا ہوں۔ حکم ہوا کہ اول اس کو کسی جگہ (مضبوط) باندھ لو، اس کے بعد توکل کرو۔
حق تعالیٰ مخلوق کی طرح اسباب کا محتاج نہیں، وہ ذات تو بغیر اسباب کے بھی نظام کائنات چلا سکتی ہے اور اس پر قادر ہے، لیکن اس کی عادت یہی ہے کہ وہ اسباب کے تحت ہی کائنات کا نظام چلاتا ہے۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ بندہ کو زیبا نہیں ہے کہ وہ آقا کو عادت کے خلاف کرنے پر مجبور کر کے اسے آزمائے۔ یہ جاہلوں کا خیال ہے کہ توکل تو محنت و مزدوری اور کسب کے چھوڑ دینے کا نام ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیکار بن کر بیٹھ جائے۔ اگر بیمار ہو تو دوا نہ لے، بے سوچے سمجھے اپنے آپ کو خطرات اور ہلاکت میں ڈال دے کہ کہیں آگ میں گھس جائے اور کہیں شیر کے منہ میں ہاتھ دیدے، وغیرہ تب متوکل کہلائے۔ یہ خیال بالکل غلط اور اسلام کے احکامات سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا شرعاً حرام ہے اور شریعت محمدیؐ ہی توکل کی خوبیاں بیان کر رہی ہے۔ پھر بھلا جس بات کو شریعت ہی خود ناجائز بتائے، اس کی رغبت کیسے دلائے گی؟ اصل بات یہ ہے کہ انسان کی سعی کوشش یہی ہے، جس کا صلہ اسے ملے گا۔ مثلاً کوئی شخص بھوکا ہو اور کھانا بھی اس کے سامنے رکھا ہوا ہو، مگر وہ ہاتھ نہ بڑھائے اور نوالہ بنا کر منہ تک نہ لے جائے یا غلہ و روزی کا خواہاں ہو، مگر بیج کھیت میں نہ ڈالے یا اولاد کا طالب ہے اور شادی ہی نہ کرے اور کہے کہ میں تو متوکل (توکل کرنے والا) ہوں۔ ایسا خیال تو سراسر جہالت ہے، کیونکہ ان اسباب کو حق تعالیٰ نے ہی پیدا فرمایا اور قاعدے کے طور پر تجویز فرما دیا ہے اور اس میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا ہے۔ البتہ ان اسباب میں توکل کرنے کی یہ صورت ہے کہ اول اس بات کا پختہ خیال رکھے کہ کھانا اور ہاتھ خدا کے دیئے ہوئے ہیں اور کھانے کی طاقت و قدرت بھی اسی ذات کی عطا کی ہوئی ہے۔ اسی طرح بیج اور کھیتی باڑی کی استعداد بھی خدا نے دی ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان ظاہری اسباب پر بھی دل سے بھروسہ نہ کرے، دل سے خالق ہی پر بھروسہ کرے، دل سے اسباب پر بھروسہ کرنا سراسر غلط ہے۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اگر ہاتھ پر فالج کا اثر ہو جائے اور کھانا کھا رہا ہو اور وہ زمین پر گر پڑے، زمین میں بیج بویا ہو اس کو کیڑا کھا جائے یا پیدا ہوا ہو اور اس پر اولہ پڑے وغیرہ۔ الغرض ان تمام چیزوں کا لحاظ رکھ کر سعی و کوشش کرنے میں نہ کچھ مضائقہ ہے اور نہ اسباب کو اختیار کرنا تو کل کے خلاف ہے، بلکہ اسباب کو استعمال میں لانا ضروری ہے۔ (بحوالہ تبلیغ دین ص 226 امام غزالیؒ)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post