حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت وعدے کی پاسداری بھی ذکر فرمائی ہے:
ترجمہ: ’’اور جب کوئی عہد کر لیں تو اس عہد کو پورا کرنے کے عادی ہوں۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: 177)
ابراہیم خواص صوفیؒ فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ میں نیک لوگوں کی جماعت کے ساتھ سمندر کے سفر پر تھا۔ ہماری کشتی تند و تیز موجوں کی زد میں آگئی اور ٹوٹ گئی۔
کچھ لوگ کشتی کے تختوں پر تیرتے رہے اور نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ ہم ایک نامعلوم ساحل پر پہنچے، جس میں ہم نے چند روز قیام کیا، مگر اس دوران ہمارے پاس بھوک مٹانے کے لیے کوئی چیز نہ تھی، جس کی وجہ سے موت کی سرسراہٹ محسوس ہو رہی تھی اور اپنے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ تھا۔
واضح رہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت نوحؑ کو کشتی میں سوار ہونے کی جو دعا تعلیم فرمائی، اس کو پڑھ کر اگر کوئی شخص کشتی میں سوار ہو تو حق تعالیٰ کی حفظ و امان میں رہے گا:
ترجمہ: ’’اس کا چلنا بھی خدا ہی کے نام سے ہے اور لنگر ڈالنا بھی۔ یقین رکھو میرا پروردگار بڑا بخشنے والا ہے، بڑا مہربان ہے۔‘‘ ( سورۃ ہود: 41)
یہ صورت حال ہمارے لیے بہت ہی پریشانی کا باعث تھی کہ ہمیں اپنی جان بچانے کے لیے اب کیا کرنا چاہیے؟ آپس میں مشورہ کیا تو یہ بات طے ہوئی کہ ہمیں اس مرحلے پر رب تعالیٰ کے لیے نذر (منت) ماننی چاہیے کہ اگر باری تعالیٰ ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما دے تو ہم اس کے لیے فلاں فلاں نیک کام کریں گے۔
چنانچہ ایک ساتھی نے کہا: ’’میں ساری زندگی روزہ رکھوں گا۔‘‘
دوسرے نے کہا: ’’میں ہر روز اتنی اتنی رکعتیں پڑھوں گا۔‘‘
تیسرے نے یہ نذر مانی کہ: ’’میں دنیا کی تمام لذتوں سے کنارہ کش ہوجاؤں گا۔‘‘
ہر ایک نے کوئی نہ کوئی منت مانی، مگر میں بالکل خاموش رہا۔
مجھ سے کہنے لگے: ’’تم بھی تو کسی چیز کی منت مانو!‘‘
میری زبان سے بے ساختہ یہ نکل گیا: ’’میں کبھی بھی ہاتھی کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔‘‘
وہ حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’یہ کیا بات ہوئی، ایسے موقعے پر ایسی بات کی منت مانی جاتی ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’خدا کی قسم! یہ بات میں نے جان بوجھ کر نہیں کہی، بس میرے منہ سے خود بخود نکل گئی ہے۔ میں نے تم لوگوں کو مسلسل کسی نہ کسی بات کی منت مانتے ہوئے دیکھا تو میں نے بھی اپنے لیے سوچنے لگا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور ایک ایک کرکے مختلف چیزیں میں نے اپنے دل پر پیش کی، مگر میرے دل نے کسی کو بھی قبول نہیں کیا اور اچانک جب نکلا تو یہ میرے منہ سے نکلا، ظاہر ہے اس میں بھی رب تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت چھپی ہوگی۔‘‘
کچھ دیر کے بعد ایک ساتھی نے کہا: ’’کیوں نہ ہم اس علاقے کا ایک گشت کرکے دیکھ لیں؟ شاید کہ کچھ کھانے کا بندوبست ہو جائے۔ جسے بھی کچھ آسرا نظر آئے تو وہ اپنے تمام ساتھیوں کو آگاہ کر دے اور پھر سب اسی درخت کے نیچے اکٹھے ہو جائیں گے۔‘‘
ہم سب گشت پر نکل گئے اور کچھ ہی دیر کے بعد ایک ساتھی کو ہاتھی کا ایک بچہ نظر آگیا، جسے اس نے قابو کیا اور ہم سب کو مطلع کیا۔ سب جمع ہوئے، ذبح کرکے اسے پکایا اور پھر سب نے مل کر کھایا، مگر میں نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ وہ اصرار کرنے لگے کہ: ’’آجاؤ! تم بھی کھالو!‘‘
میں نے ان سے کہا: ’’کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے اپنی جان بخشی کے لیے رب تعالیٰ سے کس چیز کی منت مانی تھی اور شاید اسی وجہ سے میرے منہ سے بے ساختہ اسی کے نہ کھانے کی قسم نکل گئی۔ بہرحال یہ بات کسی بھی پوشیدہ حکمت سے خالی نہیں ہے، یا تو میری موت لکھی ہوئی ہوگی کہ نہ کھانے کے سبب تمہارے درمیان ہی واقع ہو، یا پھر جو بھی بات ہوگی، وہ خدا ہی جانتا ہے۔ جب بات یہی ہے تو میں اس کو نہ کھا کر کم از کم رب تعالیٰ کے آگے تو شرمندہ ہونے سے بچوں۔‘‘
رات ہوگئی اور سب درخت کے نیچے آکر آرام کے لیے لیٹ گئے۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ اتنے میں ایک عظیم الجثہ ہاتھی نمودار ہوا، اس کے تیز دوڑنے کی وجہ سے سارے صحرا پر زلزلہ طاری تھا، وہ ہمیں ہی تلاش کر رہا تھا اور بالآخر وہ ہم تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post