اصفہان اسٹیل مل شہر سے خاصے فاصلے پر فولاد شہر میں واقع تھی۔ میں امیر کبیر ہاسٹل سے بذریعہ فی سواری ٹیکسی سے زائندہ رود کے بس اسٹینڈ پر پہنچا، جس کا اصل فارسی نام ’’ترمینال مسافر بری زائند رود‘‘ تھا۔ یہاں سے میں نے ایک منی بس پکڑی اور چھ سو ریال کرایہ دے کر فولاد شہر کے ’اتو بس ترمینال (auto bus terminal) پہنچ گیا۔ یہاں پہنچتے پہنچتے اس ناشتے نے جو میں نے امیر کبیر ہاسٹل میں کیا تھا، سخت پیاس میں مبتلا کر دیا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا، کوئی دکان، ریستوران یا ریفریشمنٹ پوائنٹ نظر نہ آیا۔ ناچار اتو بس ترمینال کے آفس پہنچا اور وہاں موجود صاحبان سے دریافت کیا کہ کیا یہاں قرب و جوار میں کوئی کھانے پینے کی اشیا کی دکان موجود ہے؟ وہ بولے کہ بالکل موجود ہے اور پھر ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہاں نیچے۔ میں بتائی ہوئی جگہ سے کوئی دس بارہ فٹ نیچے اترا اور وہاں ایک خاصی کشادہ جگہ پائی، جس کے بائیں طرف ایک خاصی طویل دیوار تھی جس میں برابر فاصلے پر تین یا چار دروازے تھے، جو کہ دور سے سب کے سب بند نظر آتے تھے اور کسی دکان یا دکاندار کے کوئی آثار نہ تھے۔ میں واپس آیا اور پھر ترمینال آفس میں گیا اور ان صاحبان کو بتایا کہ وہاں تو کوئی دکان نہیں ہے۔ وہ بولے کہ آپ دوبارہ وہاں جائیں۔ میں دوبارہ وہاں گیا اور پھر تمام دروازوں کا طواف مکمل کر کے ان صاحبان کے پاس واپس آگیا اور ان سے کہا کہ سب دروازے بند ہیں۔ وہ پھر بولے کہ ایک دفعہ پھر جائیں اور غور سے دیکھیں۔ آپ کو کم از کم ایک دروازہ ضرور کھلا ملے گا اور وہی اشیائے خور و نوش کی دکان ہے۔ ناچار میں پھر نیچے اترا اور اس مرتبہ جو غور سے دیکھا تو پہلا ہی دروازہ مکمل بند نہیں تھا اور اس میں سے کچھ لوگوں کے باتیں کرنے کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ اس بدحواسی پر میں نے اپنے آپ کو بڑی ملامت کی۔ مگر میں نے اس بدحواسی کا ذمہ دار امیر کبیر ہاسٹل کے ناشتے کو اور اس کی وجہ سے لگنے والی پیاس کو ٹھہرایا اور پھر اس نیم وا یا برائے نام وا دکان کے دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر اندر آنے کی اجازت چاہی۔ فوراً ہی اندر سے اجازت آگئی اور میں دکان میں داخل ہو گیا۔
اندر دو نوجوان براجمان تھے۔ ایک صاحبِ دکان اور دوسرا ایک دراز قد اور وجیہ نوجوان جو ایرانی فوج کی یونیفارم میں ملبوس تھا اور فوج کا کوئی اعلیٰ عہدیدار معلوم ہوتا تھا۔ تعارف کے بعد دونوں جوانوں نے اس بات پر بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ میں پاکستانی ہوں اور یہ کہ ایک ماہر ارضیات ہوں۔ وہ دونوں اتنے خوش مزاج، ہنس مکھ اور پرخلوص تھے کہ باوجودیکہ میری اور ان کی عمروں میں زمین و آسمان کا تفاوت تھا، مجھے مستقل یہ محسوس ہوا کہ جیسے میں اپنے دیرینہ دوستوں سے محو گفتگو ہوں اور ہمارے قہقہوں سے پوری دکان گونجتی رہی۔ بیس پچیس منٹ کی گفتگو میں ہم پاکستان اور ایران کے سیاسی حالات اور سیاسی و فوجی لیڈروں کے کردار پر بات چیت کرتے رہے۔ اس زمانے میں پاکستان میں ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ مجھ سے میرے زیرتربیت فوجی دوست نے یکایک پوچھا کہ کیا تم اپنے سیاسی حالات سے مطمئن ہو؟ اس پر میں نے سختی سے کہا کہ میں کیسے مطمئن ہو سکتا ہوں؟ وہ بولا کہ کیا تم اس فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف کوئی جدوجہد کر رہے ہو؟ اس پر میں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر تو کسی سیاسی موومنٹ میں شامل نہیں کہ میں صرف ایک ماہر ارضیات ہی رہنا چاہتا ہوں اور میری سیاسی جدوجہد میرے گھر کے ڈائننگ روم اور ڈرائنگ روم تک اپنی فیملی اور اپنے دوستوں تک ہی محدود ہے۔ مگر اور بہت سے لوگ اس ناجائز قبضے کے خلاف سیاسی جدوجہد میں مصروف ہیں اور اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس پر وہ مسکرا کر بولا کہ ’’ہاں احتیاط لازم ہے، ورنہ مسائل پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی اور فوجیوں کا قبضہ ہو تو زبان کھولنے میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا۔ بعد ازاں میں نے اس سے دریافت کیا کہ وہ ایرانی فوج میں کس عہدے پر فائز ہے اور اس کا فیلڈ آف ایکشن کیا ہے؟ اس پر وہ نفرت سے اپنی فوجی ٹوپی کو دکان کے کائونٹر پر پٹخ کر بولا کہ نہ میں کوئی فوجی افسر ہوں اور نہ ہی کوئی فوجی افسر بننا چاہتا ہوں۔ میں تو ایک زیر تعلیم الیکٹریکل انجینئر ہوں اور یہی میرا پسندیدہ فیلڈ ہے۔ یہ جو تم مجھے اس فوجی یونیفارم میں دیکھ رہے ہو، یہ میری وقتی مجبوری ہے کہ ایران کے ہر طالب علم کو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ایک خاصی طویل فوجی ٹریننگ سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ڈگری نہیں ملتی۔ اس کو ایران میں حکومتی کاروبار میں مولوی صاحبان کی اتنی زیادہ دخل اندازی سے بھی نفرت تھی اور فوج کی حکومتی معاملات میں دخل اندازی کو بھی وہ ناپسند کرتا تھا۔ میں تو اس کی دلچسپ و پُرخلوص اور سیدھی سچی باتوں میں بالکل ہی کھو گیا تھا اور بھول ہی گیا تھا کہ میں وہاں صرف اپنی پیاس بجھانے آیا تھا اور یہ کہ میری اصل ڈیوٹی تو اصفہان اسٹیل مل کا وزٹ ہے۔ یکایک اس نے اپنی دستی گھڑی کو دیکھا اور بولا کہ میری ڈیوٹی کا وقت قریب ہے، اب مجھے چلنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے بھی دکاندار لڑکے کو خدا حافظ کہا۔ دکان سے باہر نکلنے سے پہلے اس نے اپنی فوجی ٹوپی پہنی، یونیفارم کو درست کیا اور چہرے پر ایسی سنجیدگی طاری کی کہ وہ چند لمحوں میں ایک با رعب اور سخت گیر سینئر فوجی افسر معلوم ہونے لگا۔ اتو بس ترمینال کے قریب پہنچ کر وہ مجھ سے جدا ہونے لگا تو میں نے کہا کہ میرا ایک مسئلہ ہے، شاید تم میری مدد کر سکو۔ اس نے کہا کہ ہاں بتائو۔ اس پر میں نے اسے بتایا کہ مجھے اصفہان اسٹیل مل جانا ہے۔ اگر وہاں جانے کے لیے مجھے کسی ٹیکسی کا بندوبست کر دو تو مجھے آسانی ہو جائے گی۔ اس پر وہ بولا کہ یہ کون سا مسئلہ ہے، آئو میرے ساتھ۔ یہ کہہ کر وہ مجھے ساتھ لیے اتو بس ترمینال کے آفس میں جا گھسا۔ اسے دیکھتے ہی ترمینال کے دونوں اہلکار کھڑے ہو گئے اور ادب سے اسے سلام کیا۔ اس پر میرا محسن ان سے یوں مخاطب ہوا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں، ان کو اسٹیل مل جانے کے لیے کسی مناسب ٹیکسی کار کا بندوبست کر دیا جائے۔ دونوں صاحبان نے سر تسلیم خم کیا اور کہا کہ ابھی ہوا جاتا ہے جناب۔ جب وہ مجھے خدا حافظ کہہ کر چلنے لگا تو میں پھر بولا کہ اگر ٹیکسی کا کرایہ بھی طے ہو جائے تو میں ٹیکسی ڈرائیور سے بحث و مباحثے سے بچ جائوں گا۔ اس پر اس مرد نیک نے ان دونوں صاحبان سے کہا کہ ہاں کرایہ کتنا ہو گا؟ اس پر انہوں نے ایک جائز رقم یعنی دس ہزار ریال بتائی اور میرا یہ مسئلہ بھی بفضل تعالیٰ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا۔ آخر میں میرے پرخلوص دوست نے میرے اور میرے سفر کے سلسلے میں ترمینال والوں کو مزید کچھ ہدایات دیں، جو میں نہ سمجھ سکا۔ میں نے اس مدد کے لیے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر ہم نے اس امید کے ساتھ کہ اللہ نے چاہا تو پھر کبھی ملیں گے، ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔
جب میں اس خوبصورت، خوش مزاج، وجیہ اور پر خلوص انسان کا شکریہ ادا کر رہا تھا اور اسے خدا حافظ کہہ رہا تھا تو میرے ذہن میں اس کے ساتھ گزارا ہوا بہت پر لطف وقت تھا اور اس کا میرے لئے مناسب ریٹ پر ایک ٹیکسی کا بندوبست کر دینا تھا اور بس۔ مجھے اس کے اس سے کہیں بڑے احسان کا پتاہی نہ تھا، جو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نادانستگی میں اس سے میرے اوپر کرا دیا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post