ایران کے ذریعے طالبان سے بھارت نے رابطے کر لیے

0

پشاور(رپورٹ :محمد قاسم )بھارت اور افغان طالبان میں رابطوں کا انکشاف ہوا ہے ۔ موثق ذرائع نے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایران کے توسط سے افغان طالبان کو پیش کش کی گئی ہے کہ نئی دلی حکومت مستقبل میں افغان سرزمین بھارت کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دیے جانے پر طالبان کی مالی و سفارتی مدد پر تیار ہے ۔ امریکی سی آئی اے نے طالبان کو افغان سرزمین سے اچانک انخلا کا عندیہ دیتے ہوئے ایران کیخلاف مدد مانگی ہے۔تفصیلات کے مطابق کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے طالبان سے رابطے کی کوششیں شروع کر دی ہیں ۔انہی کوششوں کے پس منظر میں بھارتی میڈیا کی جانب سے حکومت کو طالبان سے تعلقات بہتر بنانے کی تجاویز دی گئی ہیں اور اس ضمن میں غزنی،قندوز و فراہ میں افغان طالبان کی فتوحات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ موثق ذرائع کے مطابق بھارت کےپاسداران انقلاب ایران اور دیگر اداروں کے توسط سے افغان طالبان کے ساتھ ہرات میں مذاکرات کئے جا چکے ہیں ۔ اس موقع پر دورہ نئی دلی کی دعوت کو طالبان مسترد کر چکے ہیں۔’’امت‘‘ کو باخبر ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ماہ قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات میں پہلی بار امریکی سی آئی کے حکام نے بھی شرکت کی۔اس موقع پر طالبان کو عندیہ دیا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان سے کسی بھی وقت اچانک انخلا کا اعلان کر سکتی ہے تاہم طالبان کو اس کیلئے ایران کیخلاف امریکی مدد کرنا ہو گی۔ اس کے عوض امریکی انتظامیہ افغانستان پر طالبان کی حکومت کی راہ ہموار کرنے اور سیاسی جماعت کے قیام کے لئے طالبان کے تمام قیدی رہا کر کے اس پر پابندی ہٹانے کا اعلان کرے گا ۔ امریکہ کی پیشکش کے جواب میں افغان طالبان نے امریکی وفد کو دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ وہ افغانستان کے باہر ہدف رکھتے ہیں نہ اپنی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہونے دیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے مذاکرات کے بعد بھارتی حکام نے قطر سے نئی دلی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹ میں طالبان اور امریکا کے درمیان قطر میں تیزی سے مذاکرات ہونے کی رپورٹ دی گئی ۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سی آئی اے حکام کی 7اگست کو ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں طالبان وفد سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ روسی حکام بھی تاشقند میں افغان وفد سے ملے ہیں ۔اطلاعات کے مطابق داعش کے حوالے سے ایک صفحے پر ہونے کے باوجود افغانستان سے انخلا کے معاملے روس اور امریکہ میں اختلافات ہیں ۔روس چاہتا ہے کہ امریکا بھی اس کی طرف رسوا ہو کر افغانستان سے نکلے جبکہ امریکا محفوظ راستہ چاہتا ہے۔ان رپورٹس کے بعد ہی افغانستان میں ایرانی لابی نے طالبان سے بھارت کے تعلقات بنانے کی کوششیں شروع کیں ۔ایران کی جانب سے طالبان کو یقین دلایا گیا ہے کہ بھارت صرف افغانستان میں سرمایہ کاری اور سفارتی امور انجام دے گا ۔نئی دلی طالبان سے ضمانت چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کو مستقبل میں افغان سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہ ہونے دے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی یہ تشویش مقبوضہ کشمیر کی جہادی تنظیموں کے حوالے سے جو ماضی میں طالبان دور میں افغانستان میں رہ چکی ہیں۔بھارت کو خدشہ ہے کہ امریکا کے نکلنے کے بعد ان تنظیموں (سیاسی امور و جمہوریت کو خلاف شریعت سمجھنے والے سخت گیر جہادی عناصر)کا رخ مقبوضہ کشمیر کی جانب ہو سکتا ہے۔اسی لئے بھارتی حکومت طالبان سے ضمانت چاہتی ہے ۔طالبان کی جانب سے ایرانی حکام کو بتایا گیا کہ وہ مستقبل میں بھارت کو رول نہیں دے سکتے کیونکہ ہم نے17برس میں بہت کچھ سیکھا ہے۔حکومت ملی تو ہم اپنے کسی پڑوسی ملک سے دشمنی رکھیں گے نہ ہی دنیا کے کسی ملک کے خلاف دشمنی کریں گے ۔چاہے وہ امریکا کیوں نہ ہو ۔ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں خبریں سامنے آنے کے بعد پاکستانی حکام نے بھی طالبان سے رابطے شروع کر دیے ہیں جو پاکستان کی بعض پالیسیوں کے حوالے سے فی الحال ناراض ہیں ۔اس کی ایک وجہ اہم طالبان رہنما ملا عبد الغنی برادر کی عدم رہائی ہے جن پر اقوام متحدہ کی کوئی پابندی عائد نہیں ہے،طالبان انہی کے ذریعے بات چیت کرنا چاہتے ہیں ۔اطلاعات کے مطابق طالبان دیگر ممالک سے بھی رابطے بڑھا رہے ہیں ۔ طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کر سکتے ۔ذرائع نے امت کو بتایا کہ پاکستان میں تحریک انصاف کی منتظر حکومت کےسعودی عرب کی جانب زیادہ جھکاؤ کی خبروں کے باعث بھی طالبان اور بھارت میں رابطوں کرانے کیلئے ایرانی سرگرمیوں میں تیزی آئی ۔مستقبل میں منتخب پاکستانی حکومت کے سعودیہ سے مدد لینے کے پیش نظر بھی ایران چاہتا ہے کہ خطے میں بھارت کا کردار برقرار رہے تاکہ تہران کا کردار بھی برقرار رہے۔ایران کو زیادہ خدشہ اس بات کا ہے کہ اگر اکتوبر میں افغانستان کے پارلیمانی الیکشن میں ایران کے سخت مخالف سمجھے جانے والے حکمت یار کی جماعت حزب اسلامی نے کامیابی حاصل کر لی تو ایران کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ایرانی سرگرمیاں بڑھنے اور بھارتی میڈیا میں طالبان سے تعلقات کو بہتر بنانے کی تجاویز سامنے آنے پر افغان حکومت نے پاکستان سے معاملات ٹھیک کرنے کیلئے لچک کے مظاہرے پر غور شروع کر دیا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو دورے کی دعوت دینے والے افغان صدر دعوت ملتے ہی جلد اسلام آباد کے دورے کی کوشش کریں گے کیونکہ امریکی افواج کے نکلنے سے نہیں بقا کا مسئلہ درپیش ہو گا ۔’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ اصل مسئلہ افغانستان سےاچانک امریکی انخلا نہیں۔امریکا نہ صرف افغانستان سے انخلا چاہتا ہے بلکہ اس کی اس ضمن میں تیاریاں بھی مکمل ہیں تاہم نکلنے کے بعد ممکنہ افغان خانہ جنگی کو روکنا دنیا کے بس میں بھی نہیں ہو گا۔قبائلی و پختون معاشرے کی وجہ سے افغان طالبان انخلا کے فوری بعد بزور طاقت کابل پر حملہ آور ہوں گے جس سے لڑائی شروع ہو سکتی ہے،قبضے کی جنگ کے مکمل ہونے تک ہزاروں جانیں جا سکتی ہیں۔ اس صورتحال میں امریکا کو پوری دنیا میں غیض و غضب کا سامنا ہو سکتا ہے،اس لئے خانہ جنگی خدشات کے حوالے سے امریکہ مذاکرات میں طالبان سے امن کی ضمانت چاہتا ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More