یہ بہت پرانی بات ہے جب ایف16 طیارے پاکستان کو ملے تو پاک فضائیہ نے اس سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے لئے اخبار نویسوں کو مدعو کیا۔ اس مجلس میں بریفنگ دینے والے ایئر مارشل شربت علی چنگیزی تھے۔ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا ہم نے اپنے حساس مقامات کی فول پروف سیکورٹی کا اہتمام کیا ہے؟ جواب میں ایئر مارشل شربت علی چنگیزی فرمایا کہ میاں ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ ساری کائنات فنا ہوجائے گی اور باقی رہے گی اللہ کی ذات۔ بس وہی ایک فول پروف ہستی ہے۔ جہاں تک اپنے حساس مقامات کے حفاظتی اقدامات کا تعلق ہے، ہم نے ہر امکانی صورت میں اپنے دفاع کا انتظام کیا ہوا ہے، اگر خدا نہ کرے ہمارے ازلی دشمن نے کوئی ایسی حرکت کی تو ہم ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر اس کے وہ تمام حساس مقامات تباہ کر دیں گے، جس کے حفاظتی انتظامات کے بارے میں وہ فول پروف سیکورٹی کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔
یہ بات یوں یاد آئی کہ آج کل ہمارے یہاں اپنی ممتاز شخصیات کے حفاظتی انتظامات پر بحث جاری ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں ہر بلا اور آفت سے محفوظ رکھے۔ (آمین) ہماری تمام اعلیٰ شخصیتوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ ہم پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔ ہر بڑ ے اور چھوٹے سانحے کو ٹال دے۔ (آمین)
ایک زمانہ تھا کہ کچھ علماء جماعت اسلامی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور حضرت مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو کسی طور معاف کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔ اختلاف کیا تھا؟ اس کو سمجھنا عام آدمی کے لیے دشوار تھا۔ تاریخ کو مسخ کیا جاتا تھا اور جھوٹی تہمت لگائی جاتی تھی کہ حضرت قائد اعظمؒ کو ’’کافر اعظم‘‘ جماعت اسلامی نے کہا، حالانکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ حضرت مولانا ابو الاعلیٰ مودودی وہ واحد شخصیت تھے، جو اپنے بدترین مخالف کا نام بھی احترام سے لیتے۔ مولانا غلام غوث ہزاروی جماعت اسلامی اور اس کے امیر کے بارے میں زبان کو بے قابو ہونے سے نہیں روک سکتے تھے۔ ایک پریس کانفرنس میں جب سوال و جواب کا موقعہ آیا تو کسی نے ہزاروی صاحب سے سوال کیا کہ کیا آپ اور مولانا مودودی کے درمیان تنازعہ ختم کرنے کی کوئی صورت ہے؟ تو ہزاروی صاحب نے فرمایا کہ وہ اپنی تمام تصنیفات دریا برد کریں تو معاملہ ہو سکتا ہے۔ سوال کرنے والے نے استفسار کیا کہ چلئے، آپ کی یہ شرط اچھرہ تک ہم پہنچا دیتے ہیں، اگر وہاں سے بھی مطالبہ ہوا کہ آپ بھی اپنی تمام تحریریں ضائع کر دیں تو؟ مولانا ہزاروی نے قہقہہ لگا کر تالی بجا کر فرمایا: میں نے کچھ لکھا ہی نہیں۔ یہ تھے حضرت سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مخالفین! ہر انسان فانی ہے۔ رہے نام اللہ کا اور اس کے آخری رسولؐ اور اس کے پیغام کا اور اس پیغام کو عام کرنے میں زندگی صرف کرنے والوں کا!
عمران خان آج وزیر اعظم کا حلف اٹھانے جا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف عددی اعتبار سے سب سے بڑی جماعت ہے۔ آزاد ارکان اور بعض چھوٹے گروپوں نے بھی کل ہونے والے مقابلے میں ان کی معاونت کی اور انہوں نے اپنے حریف شہباز شریف کے مقابلے میں بھاری اکثریت بھی حاصل کی۔ سو آج سے وہ حکومت کے اس سب سے بڑے عہدے پر فائز ہوجائیں گے۔ اقتدار کی دیوی اپنی مسکراہٹیں بکھیرے گی۔ ان کے سر پر اپنا رنگین آنچل ڈال دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے۔ اپنی رہائش وزراء کالونی میں رکھیں گے اور تعطیلات بنی گالہ میں گزاریں گے۔ یہ کوئی ایسے انوکھے فیصلے نہیں ہیں۔ محمد نواز شریف بہت پہلے وزیر اعظم سیکریٹریٹ کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی یہ عمارت خالی پڑی ہے۔ وزیر اعظم کا کہیں رہنا اور کہیں نہ رہنا اصل معاملہ نہیں ہے۔ عام پاکستانی کو اس سے کوئی غرض بھی نہیں ہے، جس بات کی ان سے توقع ہے، اس کا تعلق ان کے اس منشور سے ہے، جسے انہوں نے انتخابات سے پہلے پیش کیا تھا، آیا اس پر عملدرآمد بھی کریں گے کہ نہیں؟ اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنی کابینہ میں کن لوگوں کو لیتے ہیں؟ کابینہ کی استعداد کار بھی دیکھنا ہوگی اور پھر ہماری جو بیوروکریسی ہے، وہ کس حد تک خان صاحب کے معیار پر پورا اترتی ہے اور وہ ان کے منشور کو کس حد تک قابل عمل سمجھتی ہے؟ اس طرح کے کاغذی منصوبے ماضی میں بہت سے حضرات لے کر آئے اور اپنی کوشش ناتمام کے ساتھ رخصت ہو گئے۔ ہم تو کامیابی کی دعا کے ساتھ انتظار ہی کر سکتے ہیں۔ ایمپائر کی انگلی اٹھ چکی۔ خان صاحب کے تمام مخالفین آؤٹ بھی ہوئے، مگر انہوں نے ابھی تک ہار نہیں مانی اور اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار بھی نہیں۔ عالم یہ ہوگا۔
ذرا قدم جو کہیں جادئہ وفا سے ہٹا
ہر ایک ذرہ پکارا کہ دیکھتا ہوں میں
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان انتخاب میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس ناکامی نے انتخابات کو خاصی حد تک مشکوک کر دیا ہے۔ حزب اختلاف میں آنے والی دوسری جماعتیں دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں۔ خدشہ یہ تھا کہ ناکام ہونے والی جماعتیں پارلیمنٹ سے باہر رہ کر احتجاج کریں گی اور امن و امان کے خراب ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے، مگر ان کا یہ فیصلہ مبارک ہے کہ احتجاج پارلیمنٹ کے اندر ہوگا۔ 77ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جس تحریک کا آغاز ہوا، اس کا انجام بڑا خوفناک تھا کہ وطن عزیز دس برس کے لیے جمہوری سیاست سے محروم ہو گیا اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت کارگر نہ ہو سکی۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان سے مولانا فضل الرحمان کی ناکامی پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے کہ یہ وہ نشست ہے، جہاں جمعیت کا غلبہ ہے اور یہ وہی نشست ہے کہ جس پر جناب ذوالفقار علی بھٹو اپنے عروج کے زمانے میں حضرت مفتی محمودؒ سے شکست کھا گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ دھاندلی کس نے کی؟ کس جماعت نے؟ کس امیدوار نے؟ یا کسی نادیدہ قوت نے؟ اس کی تحقیق ہونی چاہئے اور اس بات کی بھی تحقیق ضروری ہے کہ اس دھاندلی کا سارا ملبہ دینی جماعتوں پر کیوں ڈالا گیا؟ تحقیقات کے بعد اس کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ ورنہ عمران خان اس الزام کے سائے میں پانچ برس گزاریں گے کہ وہ ایک ایسے ایوان کے قائد ہیں، جو دھاندلی کے ذریعے وجود میں آیا۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
یہ اگست کا مہینہ ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کا مہینہ؟ یہ آزادی بے قیمت مسلمانوں کو نہیں ملی۔ بٹوارے کے وقت جو خون خرابہ ہوا، اس کی یاد دل میں یوں کہ نیزے کی اَنی ہو جیسے۔ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ 40 ہزار مسلمان بچیاں اغواء ہوئیں۔ یہ ایک المناک کہانی ہے۔ دو خوش قسمت بچیاں ایسی بھی ہیں، جو بازیاب ہوئیں۔ ایک حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی عزیزہ طاہرہ اور دوسری کشمیر کے عظیم رہنما چوہدری غلام عباس کی صاحبزادی، جو جموں سے اغوا ہوئیں۔ شنید ہے کہ حضرت قائد اعظمؒ نے چوہدری غلام عباس سے فرمایا تھا کہ میں آپ کی صاحبزادی کی بازیابی کے لیے پنڈت نہرو سے بات کرتا ہوں۔ جواباً عرض کیا کہ جموں سے چالیس ہزار بچیاں اغوا ہوئیں۔ ایک بیٹی کے لیے کیا بات کرنی؟ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چوہدری غلام عباس کی بچی کو اغوا کرنے والا سکھ نوجوان بچی کو لے کر پاکستان آگیا اور مسلمان ہو کر اس بچی سے نکاح کیا۔ خدا تعالیٰ کی شان ہے محترمہ طاہرہ بھی بازیاب ہو کر نانوتہ پہنچیں۔ 48ء میں محترمہ طاہرہ کو لینے کے لئے سکھوں نے نانوتہ پر حملہ کیا۔ ایک دن اور ایک رات قصبہ میں جنگ ہوتی رہی۔ اب نانوتہ میں محترمہ طاہرہ کا مزار ہے۔ ان کے نام سے تعلیمی ادارہ اور شفاخانہ قائم ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات عرصہ تک کھٹکتی رہی کہ آخر سکھوں کو مسلمانوں سے عداوت کیا تھی؟ مگر کوئی شافی جواب نہ مل سکا۔ دس برس قبل براستہ امرتسر بھارت جانے کا اتفاق ہوا تو پنجہ صاحب کا دورہ بھی کیا۔ اس گردوارے کی دوسری منزل پر وسیع و عریض ہال ہے، جس میں سینکڑوں تصاویر سجائی گئی ہیں۔ ہر تصویر میں کسی سکھ کو اذیت دے کر قتل کرتے دکھایا گیا ہے۔ تصویر کے نیچے کیپشن لکھا ہے: ’’بھائی منڈ سنگھ کو اورنگ زیب کے سپاہی آرے سے چیر رہے ہیں۔‘‘ یا ’’بھائی منگا سنگھ کی گردن اورنگ زیب کے سپاہی تلوار سے کاٹ رہے ہیں۔‘‘ تب سمجھ میں آیا کہ یہ دشمنی تو صدیوں سے سکھ اپنے دل میں پال رہے ہیں۔ پھر اندرا گاندھی نے پنجہ صاحب میں آپریشن کرکے سکھوں کی نفرتوں کا رخ مسلمانوں سے اپنی جانب موڑ دیا۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post