شاہ صاحبؒ نے کہا: بڑی بی تم نے ساری زندگی لوگوں کو راگ و سرور سنایا ہے، آج ذرا کچھ دیر ہم فقیروں کی صدا بھی سن لو! جی سنایئے، ہم مکمل توجہ کے ساتھ آپ کا بیان سنیں گی! یہ کہہ کر اس نے تمام طوائفوں کو پازیبیں اتارنے اور طبلے ڈھولکیاں بند کر کے وعظ سننے کا حکم دے دیا۔ وہ ہمہ تن گوش ہوکر بیٹھ گئیں۔ شاہ اسماعیلؒ نے حمائل شریف نکال کر سورۃ التین تلاوت فرمائی۔ آپ کی تلاوت اس قدر وجد آفریں اور پر سوز تھی کہ طوائفیں بے خود ہو گئیں۔
اس کے بعد آپ نے آیات مبارکہ کا دلنشین رواں ترجمہ کرکے بیان شروع کر دیا! ان کا یہ خطاب زبان کا کانوں سے خطاب نہ تھا، بلکہ یہ دل کادلوں سے اور روح کا روحوں سے خطاب تھا۔ یہ خطاب دراصل اس الہام ربانی کا کرشمہ تھا، جو شاہ صاحب جیسے مخلص دردمندوں اور امت مسلمہ کے حقیقی خیرخواہوں کے دلوں پر اترتا ہے! جب طوائفوں نے شاہ صاحب کے دلنشین انداز میں سورت کی تشریح سنی تو ان پر لرزہ طاری ہو گیا۔ روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ شاہ صاحبؒ نے جب ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑیاں دیکھیں تو انہوں نے بیان کا رخ توبہ کی طرف موڑ دیا اور بتایا کہ جو کوئی گناہ کر بیٹھے تو خدا سے اس کی معافی مانگ لے تو رب بڑا رحیم ہے، وہ معاف بھی کر دیتا ہے، بلکہ اسے تو اپنے گنہگار اور سیاہ کار بندوں کی توبہ سے بے حد خوشی ہوتی ہے۔
آپ نے توبہ کے اتنے فضائل بیان کیے کہ ان کی سسکیاں بندھ گئیں۔ کسی ذریعے سے شہر والوں کو اس وعظ کی خبر ہو گئی۔ وہ دوڑے دوڑے آئے اور مکانوں کی چھتوں، دیواروں، چوکوں اور گلیوں میں کھڑے ہو کر وعظ سننے لگے۔ تاحدِنگاہ لوگوں کے سر ہی سر نظر آنے لگے! شاہ صاحب نے انہیں اٹھ کر وضو کرنے اور دو رکت نوافل ادا کرنے کی ہدایت کی۔ جب وہ وضو کر کے قبلہ رخ کھڑی ہوئیں اور نماز کے دوران سجدوں میں گریں تو شاہ صاحب نے ایک طرف کھڑے ہو کر رب کے سامنے ہاتھ پھیلا دیئے اور عرض کیا: اے مقلب القلوب! اے مصرف الاحوال! میں تیرے حکم کی تعمیل میں اتنا کچھ ہی کر سکتا تھا، یہ سجدوں میں پڑی ہیں، تو ان کے دلوں کو پاک کر دے، گناہوں کو معاف کردے اور انہیں آبرومند بنا دے تو تیرے لیے کچھ مشکل نہیں، ورنہ تجھ پر کسی کا زور نہیں، میری فریاد تو یہ ہے کہ انہیں ہدایت عطا فرما، انہیں نیک بندیوں میں شامل فرما!
اِدھر شاہ صاحب کی دعا ختم ہوئی اور اُدھر ان کی نماز۔ وہ اس حال میں اٹھیں کہ دل پاک ہو چکے تھے! اب شاہ صاحب نے عفت مآب زندگی کی برکات اور نکاح کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی اور اس موضوع کو اس قدر خوش اسلوبی سے بیان کیا کہ تمام طوائفیں گناہ کی زندگی پر کف افسوس کرنے لگیں اور نکاح پر راضی ہو گئیں۔ چنانچہ ان میں سے جوان عورتوں نے نکاح کرا لیے اور ادھیڑ والیوں نے گھروں میں بیٹھ کر محنت مزدوری سے گزارہ شروع کر دیا۔
ان رقاصائوں میں سے سب سے زیادہ خوبصورت موتی نامی خاتون کو جب اس کے سابقہ جاننے والوں نے شریفانہ حالت اور سادہ لباس میں مجاہدین کے گھوڑوں کے لیے ہاتھ والی چکی پر دال پیستے دیکھا تو پوچھا: وہ زندگی بہتر تھی جس میں تو ر یشم و حریر کے ملبوسات میں شاندار لگتی اور تجھ پر سیم وزر نچھاور ہوتے تھے یا یہ زندگی بہتر ہے، جس میں تیرے ہاتھوں پر چھالے پڑے ہوئے ہیں؟ کہنے لگی: خدا کی قسم! مجھے گناہ کی زندگی میں کبھی اتنا لطف نہ آیا جتنا مجاہدین کے لیے چکی پر دال دلتے وقت ہاتھوں میں ابھرنے والے چھالوں میں کانٹے چبھو کر پانی نکالنے سے آتا ہے!
(تذکرۃ الشہید)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post