کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو) مراد علی شاہ نے انور مجید کو شریک چیئرمین پی پی آصف علی زرداری کا خصوصی پیغام پہنچایا اور انہیں جلد رہائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ امراض قلب کے ادارے این آئی سی وی ڈی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مراد علی شاہ جمعہ کی شب 11سے 12 کے درمیان این آئی سی وی ڈی پہنچے۔ وہ گاڑی خود ڈرائیو کر رہے تھے اور ان کے ساتھ کوئی پروٹوکول نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق آدھے گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ون آن ون ملاقات میں مراد علی شاہ نے انور مجید سے خیریت دریافت کی اور آصف علی زرداری کا خصوصی پیغام پہنچایا اور انہیں جلد رہائی کی یقین دہانی کرائی۔ ذرائع کے مطابق انور مجید کو بتایا گیا کہ تمام امور طے پاچکے ہیں۔ صرف چند روز کے لئے انہیں اسپتال میں رہنا پڑے گا۔انور مجید کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹوں کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ ان کے حوالے سے جلد اقدامات کئے جائیں، جس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ اس سلسلے میں فاروق ایچ نائیک کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے دوران مراد علی شاہ نے انور مجید کو علاج کی بہتر سہولیات کی فراہمی کی بھی یقین دہانی کرائی۔ واضح رہے کہ جمعہ کی شام انور مجید کو سینے میں تکلیف کے باعث این آئی سی وی ڈی لایا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی ادارہ برائے امراض قلب منی لانڈرنگ کیس کے ملزمان کی ‘‘پناہ گاہ’’ بن گیا ہے، جہاں دوسری منزل پر واقع اس پرائیویٹ وارڈ میں انور مجید بیڈ نمبر239پر جبکہ منی لانڈرنگ کیس کے ایک اور اہم ملزم حسین لوائی بیڈ نمبر210پر داخل ہیں۔ این آئی سی وی ڈی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انور مجید کو دل کے وال کی تنگی (اے ایس سیویئر) کے باعث داخل کیا گیا تھا۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نوید اللہ ان کا علاج کر رہے ہیں۔ ہفتے کے روز بھی ان کے کچھ ٹیسٹ لئے گئے جن کی رپورٹس آنا بھی باقی ہیں۔ ذرائع کے مطابق حسین لوائی کو لاحق امراض قلب سے متعلق کئے جانے والے طبی معائنے میں کسی مرض کی تشخیص نہیں ہوسکی ہے، تاہم اس کے باوجود وہ اسپتال داخل ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں جانتے، مراد علی شاہ نے وزارت اعلیٰ کا حلف ہفتے کے روز لیا ہے۔حلف سے قبل انہوں نے پروٹوکول لینے سے انکار کر دیا تھا۔
کراچی (اسٹاف رپورٹر) بینکنگ کورٹ نے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ سے متعلق کیس میں ملزمان حسین لوائی اور طحہ رضا کی درخواست ضمانت پر فیصلہ پیر تک محفوظ کرلیا۔ عدالت نے ملزم عبدالغنی کی جانب سے دائر مبینہ تشدد کیخلاف درخواست پر ایف آئی اے اور وکلا کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ ہفتے کے روز بینکنگ کورٹ میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں ملزمان حسین لوائی اور طحہ رضا کی درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے ملک ممتاز الحسن کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ وائٹ کالر کرائم 30جعلی بینک اکاوئنٹس پر پھیلا ہوا ہے۔ دیکھنا ہوگا ان جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے کے مقاصد کیا تھے۔ جعلی اکائونٹس کھولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ 20 ہزار روپے لینے والے ملازمین کے اکاؤنٹس میں 4،4 ارب روپے منتقل کیے گئے۔ حسین لوائی سمٹ بینک کے سربراہ تھے، سب ان کی نگرانی میں ہوا، اومنی گروپ بھی اس اسکینڈل میں برابر کا شریک ہے۔ حسین لوائی اور طحہ رضا کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے۔ تفتیشی افسرعلی ابڑو کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ زمینوں اور ٹھیکیداروں کے کک بیک ان جعلی اکائونٹس کے ذریعے منتقل ہوئے،عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ کیا شواہد ہیں کہ یہ رقوم غیر قانونی طور پر منتقل ہوئیں،فرض کر لیں یہ بلیک منی تھی مگر اصل اکائونٹس میں پہلے سے موجود تھی۔عدالت کو مطمئن کریں۔ ملزمان کو جعلی اکائونٹس کھولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ حسین لوائی کے موبائل واٹس ایپ، ای میل، میسجز بطور ثبوت حاصل کر لیے ہیں۔ منی لانڈرنگ کی ساری چین ان جعلی اکائونٹس کے گرد گھوم رہی ہے۔ مکمل شواہد موجود ہیں کہ پیسے کہاں سے آئے، کیسے آئے، کیسے نکلے، 29 میں سے 16بینک اکاؤنٹس سمٹ بینک کے ہیں۔ سماعت کے دوران وکیل صفائی شوکت حیات کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ حسین لوائی کے خلاف اب تک کوئی شواہد نہیں۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ واٹس ایپ پیغامات پر کیا کہیں گے، وکیل شوکت حیات کا کہنا تھا کہ جب تک واٹس ایپ پیغامات کا فرانزک ٹیسٹ نہ ہو جائے، تب تک کوئی قانونی حیثیت نہیں، ثابت کریں یہ کک بیک اور کرائم کا پیسہ تھا، سنگل پائی حسین لوائی کے اکاؤنٹ میں نہیں گئی، وہ ملزم کیسے ہوئے، انہوں نے کہا ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں بڑے دعوے کئے، مگر ٹرائل کورٹ کو ایک بھی ثبوت نہیں دیا۔سماعت کے دوران ملزم انور مجید کے بیٹے عبدالغنی مجید کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی جانب سے ملزم پر مبینہ تشدد کے خلاف درخواست دائر کی گئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایف آئی اے میرے موکل عبدالغنی مجید پر رات بھر تشدد کرتی رہی اور سونے نہیں دیا گیا، تفتیش کے نام پر پہلے ایف آئی اے پھر جے آئی ٹی نے ہراساں اور تشدد کیا، مجھے میرے موکل سے ملنے نہیں دیا جا رہا، استدعا ہے کہ ایف آئی اے کو تشدد اور ہراساں کرنے سے روکا جائے۔ دوسری جانب میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ عبدالغنی مجید سے اعترافی بیان لینے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔