ایرانیوں نے ایک پل کو بھی خوبصورت سیرگاہ بنادیا

0

جب میں اس واقعے کا مطالعہ کر رہا تھا تو مجھے اپنی مادر درس گاہ یعنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد یاد آ گئی جو یونیورسٹی کے مرکز یعنی سر سید ہال میں واقع ہے اور جس کی تعمیر دہلی کی شاہ جہانی جامع مسجد کی طرز پر کی گئی ہے اور جہاں پر ہر ہفتے جمعہ کی نماز کی دو جماعتیں ہوتی تھیں۔ پہلے سنی امام سنی مسلمانوں کی جماعت کراتے۔ اس کے بعد شیعہ امام شیعہ مسلمانوں کی جماعت کراتے تھے۔ کیا اچھا ہو اگر برصغیر کے تمام سنی اور شیعہ علماء مل بیٹھیں اور اس بات پر اتفاق کرلیں کہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے تمام نمازی حضرات ایسے تمام علاقوں میں جہاں شیعہ مساجد نہیں، سنی امام کے پیچھے نماز ادا کرلیں، اسی طرح جس طرح سنی امام ادا کر رہا ہے اور اسی طرح سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے تمام نمازی حضرات ایسے تمام علاقوں میں جہاں سنیوں کی مساجد نہیں ہیں، شیعہ امام کے پیچھے نماز ادا کرلیں اور اسی طرح ادا کریں جس طرح شیعہ امام ادا کررہا ہے۔ اس عمل سے ہر دو فرقوں کے لوگوں کو جماعت سے نماز پڑھنے کا ثواب مل سکے گا، نیز دونوں فرقوں کے درمیان نفرتیں اور غلط فہمیاں ختم ہوں گی۔ راقم الحروف اپنے پورے دورہ ایران میں جہاں جہاں ممکن ہوا، شیعہ اماموں کے پیچھے نمازیں پڑھتا رہا ہے بالخصوص شیراز میں، اور اس سلسلے میں کئی اچھے اور خوشگوار تجربے بھی ہوئے ہیں۔ اس سلسلے کا صرف ایک واقعہ جس کا تعلق شیراز کی ایک خاصی بڑی اور خوبصورت مسجد سے ہے، آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔
اس وقت میں شیراز شہر کے کسی اندرونی علاقے میں تھا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ میں نے مقامی اصحاب سے مسجد کی بابت معلوم کیا اور ان کی نشاندہی پر بجانب مسجد چل دیا۔ مسجد کے قریب پہنچا تو اس وقت مسجد کے خادم یا متولی مسجد کو بند کر کے اور اس کے دروازے پر بڑا سا تالہ لگا کر اپنے گھر جا رہے تھے۔ مجھے تیز تیز سوئے مسجد آتا دیکھا تو رک گئے اور میرے قریب پہنچنے پر دریافت کیا کہ صلاۃ؟ یعنی کیا تم نماز پڑھنے آئے ہو؟۔ میرے اثبات میں سر ہلانے پر وہ صاحب واپس مسجد کے دروازے پر آئے، تالہ اور دروازہ کھولا اور مجھے مخاطب کرکے کہا ’بسم اللہ‘ اور خود وہ صاحب مسجد کے اندر ایک جانب کھڑے ہوگئے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اپنے جوتے اتارے، مسجد کی وضو گاہ پر وضو کیا اور پھر مسجد کے صحن میں جاکر دو رکعت نماز ظہر قصر ادا کی۔ اس دوران وہ صاحب مجھے وضو کرتے اور نماز پڑھتے ہوئے غور سے دیکھتے رہے۔ میرا طریقہ تھا کہ جب میں کسی مسجد میں شیعہ امام کی اقتدا میں نماز پڑھتا تو شیعہ صاحبان کی طرح ہاتھ چھوڑ کر ہی نماز ادا کرتا اور پوری کوشش کرتا کہ بالکل ویسے ہی نماز ادا کروں جیسا کہ امام صاحب کر رہے ہیں۔ مگر جب اکیلا نماز پڑھتا تو سنیوں کے طریقے پر ہی پڑھتا۔ اس وقت بھی کیونکہ میں اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اس لئے سنیوں کی طرح ہاتھ باندھ کر نماز ادا کی۔ اس طرح مسجد کے متولی صاحب نے سجھ لیا کہ یہ شخص سنی ہے۔ جب میں نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر نکل آیا تو وہ صاحب بھی میرے پیچھے مسجد سے باہر آگئے، مسجد کو بند کیا، مجھے الوداعی سلام کیا، ہاتھ ملایا اور بڑے خلوص سے میری نماز کی قبولیت کی دعا کی۔ میں ان صاحب کے اس طرز عمل سے بہت متاثر ہوا اور آج تک انہیں دعائیں دیتا ہوں۔
اسی علاقے میں ایک وسیع اور خوبصورت پارک ہے اور اس کا نام چہار باغ ہے۔ شاید وہ قریب قریب واقع چار مختلف باغوں کو یکجا کرکے بنایا گیا ہے، اس لئے اس کا نام چہار باغ ہے اور اسی کی مناسبت سے اس پورے علاقے کا نام بھی چہار باغ رکھ دیا گیا ہے۔ میں نے یہ خوبصورت باغ خاصی تفصیل سے دیکھا اور اس کے مختلف حصوں کی تصاویر بھی اتاریں۔ مجھے اس وسیع باغ کا سب سے مسحورکن حصہ پارک کے مرکز میں واقع اور شفاف پانی سے لبریز وسیع و عریض تالاب اور اس میں لگے ہوئے چھوٹے بڑے لاتعداد فوارے لگا۔ چہار باغ کی دوسری اہم چیز اس میں واقع درختوں سے گھری ایک شاندار تاریخی عمارت ہے، جس کا نام ’’چہل ستون‘‘ یعنی چالیس ستونوں والی عمارت ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے چہار باغ سے متصل ہی اصفہان کی بلند اور سرخ چہار دیواری والی جامع مسجد بھی ہے، جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔
اسی شام میں نے اصفہان کی ایک اور اہم اور شاندار چیز دیکھی اور وہ تھی دریائے زائندہ (جسے ایران میں زائندہ رود کے نام سے پکارا جاتا ہے) پر تعمیر شدہ پتھروں کے بلاکوں سے بنا محرابوں والا ایک پل۔ یہ عام پل نہ تھا بلکہ ایک سیر گاہ تھی اور بہت خوبصورت تھی۔ اس میں جگہ جگہ اطمینان سے دریا اور اس کے کناروں کا نظارہ کرنے کے لئے باہر نکلی ہوئی جگہیں بنائی گئی ہیں۔ اس طرح ایرانیوں نے ایک پل کو بھی ایک سیر گاہ بنادیا تھا۔ مگر اس سیرگاہ کا اصل لطف رات کے وقت ہی ہے، جب جگہ جگہ بجلی کے قمقمے روشن ہوجاتے ہیں، جس سے پل کے خد و خال ابھر آتے ہیں۔ نیز دریا کے پانی میں روشنیوں کا انعکاس ایک اور ہی منظر پیش کرتا ہے۔
شیخ سعدی شیرازی نے اپنی کسی نظم کا ایک شعر پلوں کے حوالے سے بھی کہا ہے اور وہ یہ ہے
دنیا پلے ست رہگزرِ دار آخرت
اہل تمیز خانہ نہ گیرند بر پُلے
(دنیا تو بس ایک پل ہے آخرت کی گزرگاہ کا… اور سمجھدار لوگ کسی پل پر گھر نہیں بنایا کرتے)
شیخ سعدی نے مندرجہ بالا شعر اپنے زمانے کے پلوں کے حوالے سے کہا ہے۔ مجھے امید ہے بلکہ یقین ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں ایک مرتبہ پھر اس دنیا میں واپس بھیج دے تو کم از کم وہ اصفہان میں واقع زائندہ رود کے اس پل پر کہ جس کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے، مکان بنالینے کی ضرور اجازت دیدیں گے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More