امام شافعی کی عید

0

امام مزنیؒ یہ واقعہ سناتے ہیں: ’’ایک بار عید کی رات تھی۔ میں امام شافعیؒ کے ساتھ مسجد سے گھر تک آیا۔ ایک دینی مسئلے پر گفتگو چھڑی ہوئی تھی اور حضرت امام حلم و حکمت کے موتی سر راہ لٹاتے جا رہے تھے، دروازے پر پہنچے تو وہاں ایک شخص کو اپنا منتظر پایا۔ اس نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور عرض کیا:
’’یہ تھیلی میرے آقا نے خدمت عالی میں نذر کی ہے۔‘‘ امام صاحبؒ نے شکریئے کے ساتھ یہ تھیلی قبول فرما لی۔ وہ شخص رخصت ہوا ہی تھا کہ ایک اور شخص گرتا پڑتا امام شافعیؒ کی طرف چلا آرہا تھا۔
’’امام صاحب!‘‘ نووارد نے ہانپتے ہوئے دکھڑا سنایا۔
’’گھر میں بچے کی ولادت ہوئی ہے اور میرے پاس ایک پیسہ تک نہیں…‘‘
یہ سننا تھا کہ امام صاحبؒ بے قرار ہو گئے۔ وہی تھیلی جوں کی تو اس شخص کے ہاتھ میں دیدی اور مسکراتے ہوئے گھر میں تشریف لے گئے۔‘‘
ایسے ہی عید کی ایک رات کا واقعہ ہے۔
آسمان پر ہلال عید کو دیکھ کر نیک دل بیوی نے ٹھنڈے پڑے ہوئے چولہے کی طرف دیکھا اور بے قابو ہو گئیں۔
’’کیا یہ مناسب نہ ہو گا؟‘‘ انہوں نے آبدیدہ ہوکر امام صاحب سے عرض کیا ’’کیا کچھ رقم کہیں سے ادھار منگا لیجئے…؟‘‘
سفر آخرت کی ساتھی کو یوں دلگیر ہوتے ہوئے دیکھ کر امام صاحبؒ پر بھی رقت طاری ہوگئی، ایک بے قرار نظر ان کے اداس چہرے پر ڈالی اور بھیکی ہوئی پلکوں نے کوئی خاموش پیغام دیا، جیسے کہہ رہے ہوں: تم روتی ہو؟ حالانکہ خوش ہونا چاہئے۔ بے شک یہ کانٹے ہیں، جو آج دل و جگر میں چبھ رہے ہیں، لیکن خدا کی قسم، خدا کی جنت کانٹوں ہی سے تو ڈھکی ہوئی ہے۔‘‘پھر اٹھے اور تھوڑی دیر کے بعد ستر دینا بطور قرض اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے واپس آرہے تھے۔ دل بے چین تھا کہ جس چہرے کو اداس اور مغموم کا چھوڑ کر آئے ہیں، اس چہرے کو خوشی سے مسکراتا ہوا بھی دیکھ لیں، لیکن اتنے میں فقراء و مساکین اپنا اپنا درد سنانے کیلئے ہر طرف سے آپہنچے تھے۔ ٹوٹے ہوئے دلوں کی پکار سنی اور قرض لی ہوئی رقم کا بڑا حصہ بے نوائوں کی اشک شوئی میں صرف ہو گیا۔ گھر پہنچے تو بیس دینار بچے تھے، ابھی وہ بیوی کے ہاتھ میں رکھنے نہ پائے تھے کہ ایک قریشی کی فریاد دروازے پر سنائی دی، الٹے پائوں واپس ہوئے۔ اس کا حال سنا اور یہ بیس کے بیس دینار اس کے سامنے رکھتے ہوئے صرف اتنا فرمایا:
’’بھائی! ان میں سے اپنی ضرورت بھر تم بھی لے لو۔‘‘
اس نے بیس کے بیس دینار اٹھاتے ہوئے کہا:
’’سچ کہتا ہوں اے امام! ابھی میری ضرورت پوری نہیں ہوئی، ابھی تو اور چاہئیں…‘‘
اور امام صاحب نے ایک حرف منہ سے نہ نکالا، خاموشی سے جا کر بیوی کے سامنے خالی ہاتھ کھڑے رہ گئے۔
’’آپ تو یہی کرتے رہتے ہیں…‘‘
بیوی کی آواز بھرا گئی اور امام صاحبؒ اپنے اور بیوی کے غم کو سینے سے لگائے ہوئے خاموش کھڑے رہے۔ آزمائش کی گھاٹی طے ہوئی تھی کہ خدا کی رحمت کو جوش آگیا۔ ہارون الرشید کے وزیر جعفر نے ہاتف غیبی کی آواز سے یہ واقعہ سنا اور ایک ہزار دینار کی نذر لئے ہوئے صبح سویرے ہرکارہ آپہنچا اور عرض کیا:
’’وزیر مملکت کا عاجزانہ اصرار ہے کہ یہ حقیر نذر قبول فرما لیجئے۔‘‘
یہ وہ لوگ تھے، جن کے بارے میں خدا کا ارشاد ہے:
ترجمہ ’’خدا نے ایمان والوں سے ان کی جانوں اور ان کے اموال کو خرید لیا ہے، جس کے عوض ان کیلئے جنت ہے۔‘‘
امام صاحبؒ کا یہ اصول تھا کہ ہزاروں درہم و دینار کے خزانے حکومت اور جمہور کی طرف سے ان کے قدموں میں ڈالے جاتے، مگر یہ سارا خراج عقیدت ان کی نظر میں خدا کی امانت تھا، نذرانوں کا تین چوتھائی حصہ بہرحال صدقہ و خیرات میں لگا دیا جاتا اور اس طرح عالم باقی کے خزانوں میں جمع کر دیا جاتا اور بمشکل ایک چوتھائی رقم دنیائے فانی میں خود جینے اور اہل وعیال کو زندہ رکھنے کیلئے اپنی ذات پر روا رکھی جاتی۔ ٹھیک اسی طرح زندگی کے صبح و شام کو خدا کی ’’امانت‘‘ کے طور پر تقسیم کر رکھا تھا، ان کا بہت بڑا غالب ترین حصہ اس سفر آخرت کی تیاریوں میں صرف ہوتا، جو دم توڑتے ہی شروع ہونے والا ہے اور ہزاروں سالہ برزخ کا عرصہ قیامت طے کرتا ہوا جو ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے گا، جس کی راہ میں میزان عمل کی وہ گھاٹی ہے، جہاں آدمی کی کرنی ترازو میں تو لی جا رہی ہوگی۔ حساب ہی حساب ہوگا اور عمل ختم ہو چکے گا۔
(بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More