ہالینڈ کے رکن پارلیمنٹ اور اسلام دشمن سیاستدان ملعون گیرٹ ولڈرز کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کرانے پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں سخت اشتغال پایا جاتا ہے۔ اس ملعون نے پہلے بھی اسلام مخالف ’’فتنہ‘‘ فلم بنائی تھی۔ اب اس نے بارہ جون کو اعلان کیا کہ ڈچ پارلیمنٹ میں واقع اس کے دفتر میں رواں برس کے آخر میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کیا جائے گا۔ جس میں دنیا بھر کے گستاخوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ گیرٹ ولڈرز کے بقول اسے دو سو خاکے آن لائن موصول ہو چکے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو ملک بھر میں مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس ناپاک جسارت کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا اور اسلام آباد میں ہالینڈ کے سفارت خانے کی جانب مارچ کر کے اسے بند کرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس سے قبل حکومت پاکستان نے ڈچ نائب سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کیا تھا۔ ہالینڈ کے ذرائع ابلاغ نے ان خبروں کو بھرپور کوریج دی تو وہاں کی حکومت کے رویئے میں بھی تبدیلی کے آثار ظاہر ہوگئے۔ پہلے ڈچ حکومت نے ملعون گیرٹ ولڈرز کو گستاخانہ خاکوں کی اجازت کے ساتھ سیکورٹی دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اب اس کی پشت پناہی سے دستبرداری کا عندیہ دیا ہے۔ ڈچ وزیر خارجہ اسٹف بلوک کا کہنا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج میں شدت آرہی ہے اور یہ دوسرے ممالک میں بھی پھیل سکتا ہے۔ اس لئے یہ مسئلہ کابینہ میں رکھ کر جلد کوئی لائحہ عمل طے کریں گے۔ آزادی اظہار کے نام نہاد حق کو آڑ بنا کر مقدس شخصیات کی توہین کرنا مغرب کا مشغلہ بنا ہوا ہے۔ انہیں اپنی اس ناپاک جسارت سے دنیا کے اربوں انسانوں کو پہنچنے والے صدمے کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں۔ اس ملعون نے جب 2008ء میں اسلام مخالف فلم بنائی تو اس کے خلاف سخت احتجاج ہوا تھا۔ مگر ڈچ حکومت نے اسی اظہار رائے کی آزادی کے بہانے اسے کھلی چھوٹ اور مکمل تحفظ فراہم کیا۔ احتجاج کے پیش نظر صرف بیرون ممالک میں اپنے سفیروں کو احتیاط برتنے کی ہدایت کی تھی۔ اس لئے اگر مسلم حکمران خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے اور سخت ردعمل کا اظہار نہ کیا تو عوامی احتجاج کا ہالینڈ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مسلم ممالک کی حکومتوں کو اس حوالے سے متحد ہونا چاہئے۔ چند روز قبل سعودی عرب نے کینیڈین حکومت کے ایک بیان پر وہاں سے اپنا سفیر واپس بلاکر اس سے سفارتی تعلقات معطل کر دیئے تھے۔ حضور نبی کریمؐ کی شان اقدس میں گستاخی کا مسئلہ مسلمان کیلئے سب سے حساس نوعیت رکھتا ہے۔ چونکہ پاکستانی حکومت نے ڈچ نائب سفیر کو طلب کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کی ترجمانی کی ہے۔ قومی اسمبلی میں اس پر متفقہ قرارداد بھی منظور ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے نئے پاکستان کیلئے ریاست مدینہ کو رول ماڈل قرار دیا ہے تو امید ہے کہ وہ والیٔ مدینہؐ کے تقدس و حرمت کی حفاظت کیلئے تمام مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم میں جمع کرنے کی کوشش کریں گے۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان اس حوالے سے قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ وزیراعظم کچھ روز میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے جا رہے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہاں بھی وہ اس مسئلے کو اٹھائیں۔ اس سے قبل مصر کے معزول صدر ڈاکٹر مرسی نے اقوام متحدہ میں اس پر بھرپور آواز اٹھائی تھی۔
عید اور صفائی کے ناقص انتظامات
ملک بھر کے مسلمانوں نے بدھ کو روایتی مذہبی جوش و جذبے سے عید الاضحی منائی۔ اس موقع پر سنت ابراہیمیؑ پر عمل کرتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ کروڑ جانور قربان کئے گئے۔ حکومت کی جانب سے حسب سابق صفائی و ستھرائی کے انتہائی ناقص انتظامات دیکھنے میں آئے۔ پشاور، ملتان، لاہور اور ٹھٹھہ سمیت کئی شہروں میں بدترین حکومتی کارکردگی کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں۔ ملک کا سب سے شہر کراچی ویسے بھی کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہے، جہاں صفائی کا نظام تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اس لئے ایک حالیہ سروے میں عالمی سطح پر جن دس شہروں کو انسانی رہائش کیلئے ناقابل قرار دیا گیا ہے، ان میں شہر قائد بھی شامل ہے۔ اس فہرست میں کراچی کو جنگ زدہ ملک شام کے دارالحکومت دمشق کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔ جو ہمارے ارباب اقتدار کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ کراچی میں ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ جانوروں کی قربانی کی گئی۔ اگرچہ شہری حکومت نے آلائشیں اٹھانے کیلئے بھرپور انتظامات کا پیشگی اعلان کیا تھا اور ہر ٹاؤن کیلئے رابطہ نمبر بھی جاری کیا گیا تھا۔ مگر حسب روایت عملی طور پر وہی کچھ دیکھنے کو ملا، جو سرکاری اداروں کی ریت رہی ہے۔ تین دن گزرنے کے باوجود بھی عید کے پہلے دن ذبح کئے جانے والے جانوروں کی آلائشیں سڑکوں کے اطراف، فٹ پاتھوں اور عوامی گزر گاہوں میں پڑی ہیں۔ جس سے اٹھنے والے تعفن نے شہریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ جبکہ سڑکوں اور گلیوں میں جانوروں کا خون تالاب کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جس سے گزرنے والوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے اور بیماریاں پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔ حکومت نے قربانی کے بعد اسپرے اور چونے کے چھڑکائو کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا۔ یہ تو شہر کے پوش علاقوں کا حال ہے۔ مضافاتی علاقوں میں تو جانوروں کی آلائشیں اٹھانے کی کبھی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ یوں وہ پڑی پڑی سڑ جاتی ہیں۔ایسی بے حسی شاید ہی دنیا کے کسی پسماندہ ملک میں بھی نہ ہو۔ صفائی ستھرائی کے حوالے سے عوام میں بھی شعور نہ ہونے کے برابر ہے۔ قربانی بہت بڑا عمل ہے۔ لیکن نیک عمل بھی جب دوسروں کیلئے باعث آزار بن جائے تو وہ شریعت کو ہرگز مطلوب نہیں رہتا۔ اس لئے شریعت مطہرہ میں دوسروں کے آرام کا خیال رکھنے کیلئے اونچی آواز میں تلاوت کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ مگر عوام کی اکثریت دین کی اصل روح سے لاعلم ہونے کی وجہ سے ایسے امور کی مرتکب ہوتی ہے، جس سے خلق خدا کو ناقابل برداشت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے قربانی کرنے والوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صفائی ستھرائی کا بھرپور انتظام کریں۔ جانور ذبح کرنے کے بعد اس کی آلائشیں سڑکوں کے اطراف پھینکنے کے بجائے کوڑا کرکٹ پھینکنے کی متعلقہ جگہ تک پہنچانے کی زحمت کریں۔ پھر قربانی کا خون بھی سڑکوں اور گلیوں کے بجائے کسی ایسی جگہ بہانے کی کوشش کریں، جس سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ یاد رہے دین فطرت میں کامل مسلمان اسی کو قرار دیا گیا ہے، جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمانوں کو تکلیف نہ ہو۔اس حوالے سے ائمہ مساجد اور خطبا کو چاہئے کہ وہ جس طرح قربانی کے فضائل بیان کرنے پر زور دیتے ہیں، اسی طرح وہ صفائی کی دینی اہمیت بھی اجاگر کیا کریں تاکہ عوام اسے مذہبی فریضہ سمجھ کر اس پر عمل کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہر علاقے کی سطح پر قربانی کیلئے جگہ مختص کرے، جہاں صفائی کا بھرپور انتظام ہو اور قربانی کا یہ عظیم عمل صحت کے بنیادی اصولوں کے مطابق پایہ تکمیل کو پہنچے۔ اسی صورت میں ہم قربانی کے پورے اجر و ثواب کا مستحق بن سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post