حضرت محمد بن سیرینؒ نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیسے ہو؟ اس نے جواب دیا: کیا حال ہو سکتا ہے اس شخص کا جو 500 درہم کا قرض دار ہو، عیال کثیر رکھتا ہو اور ایک پیسہ اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ یہ بات سن کر ابن سیرینؒ اپنے مکان تشریف لے گئے اور ایک ہزار درہم لاکر اس کے حوالے کیے کہ 500 درہم قرضہ میں دے دو اور 500 درہم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’دریافت حال کے بعد عملی طور پر غم خواری نہ کرنا منافقت ہے۔‘‘ (مخزن اخلاق صفحہ 325)
مخدوم کا اپنے خادم کے حالات سے آگاہ ہونا اور موقع و حالات کے مطابق تسلی، ہمدردی و ایثار کا اظہار کرنا ازروئے شریعت بے حد ضروری ہے۔ جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے فرمایا ہے کہ ’’تطییب قلب مسلم اور تسلیہ محزون عبادت عظمیٰ ہے۔‘‘ (اصلاح انقلاب امت صفحہ 234)
حضرت سہیلؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن سیرینؒ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ حجاج کو گالیاں دے رہا تھا۔ اس سے کہا اے خدا کے بندے! رک جا، اس لیے کہ دنیا میں تو نے جو صغیرہ گناہ کیا ہو گا تو تجھے آخرت میں حجاج کے دنیا میں کئے ہوئے کبیرہ گناہ سے بڑا لگے گا اور جان لے کر رب تعالیٰ حاکم عادل ہے، اگر حجاج سے اس کے ظلم کا بدلہ لے گا تو حجاج پر جس نے ظلم کیا ہو گا، اس کا بدلہ بھی اس کو دلوائے گا، لہٰذا اپنے آپ کو کسی کو گالیاں دینے میں مشغول مت کرو۔
شیخ سعدیؒ کا نکاح
حضرت شیخ شرف الدینؒ ملقب بہ مصلح الدین سعدی شیرازی (متوفی 691 ھ) حصول تعلیم کے بعد سیر و سیاحت کے دوران ایک دفعہ بیت المقدس کے جنگلوں میں ننگے پائوں (غربت کی وجہ سے) پھر رہے تھے۔ یہ صلیبی جنگوں کا زمانہ تھا۔ چنانچہ عیسائیوں نے پکڑ لیا اور ان سے خندق کھدواتے رہے۔ مدتوں بعد آپ کے ایک پرانے ملنے والے ادھر سے گزرے۔ آپ کو اس حال میں دیکھا، تو اسے ترس آیا، کچھ روپیہ دے کر شیخ کو اس مصیبت سے چھڑایا۔ اپنے گھر لائے، اتنا ہی نہیں کیا، بلکہ اپنی بیٹی سے ان کی شادی کر دی۔ (گلستان باب 2 حکایت 30)
حضرت سفیان ثوریؒ کا زہد
حضرت نصر بن ابی زرعہؒ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت مبارک بن سعیدؒ نے کہا کہ میری مالی پریشانی کی وجہ سے تم حضرت سفیان ثوریؒ کے پاس جائو، ان سے کہو کہ میری مالی پریشانی سے متعلق موصل کے والی کے نام ایک خط لکھ دو۔ چنانچہ میں حضرت سفیان ثوریؒ کے پاس گیا اور حضرت مبارکؒ کے قول سے ان کو مطلع کیا، میری بات سن کر حضرت سفیان ثوریؒ گھر تشریف لے گئے اور گھر سے کچھ کپڑوں کے ٹکڑے لا کر فرمایا: اگر ان کپڑوں سے حضرت مبارکؒ کی ضرورت پوری ہو جائے تو خط لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post