امام ابن جوزی بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا کہ ایک خراسانی شخص بغداد میں آیا، جو حج کیلئے جا رہا تھا۔ اس کے پاس ایک دوست کا موتیوں کا قیمتی ہار تھا، جس کی قیمت ایک ہزار دینار تھی (اس وقت کا ایک ہزار دینار بھی آج کے حساب سے کئی ہزار بنتے ہیں) اس نے اس کو فروخت کرنے کی کوشش کی کہ فروخت کرکے دوست کو رقم دے دوں گا۔ ہار کے گم ہونے کا خطرہ تھا۔ کوشش کے باوجود وہ نہ بک سکا، تو وہ ایک عطار کے پاس آیا، جس کی اچھی شہرت تھی، اس کے پاس اس کو امانت رکھ دیا کہ واپسی پر لے لوں گا اور حج پر چلا گیا۔
پھر جب وہ حج سے واپس آیا اور اس کے لئے ہدیہ و تحائف وغیرہ لے کر اس سے ملا۔ عطار نے اس کو کہا کہ آپ کون ہیں۔ (حالانکہ عطار اسے خوب پہچانتا تھا) اور یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جناب میں وہی شخص ہوں، جس نے آپ کے پاس ہار امانت رکھا تھا اور یہ آپ کیلئے حرمین شریفین سے کچھ تبرک و ہدیہ لایا ہوں۔
مگر اس سے بات ہی نہ کی اور اسے دھکے دے کر دکان سے نیچے پھینک دیا اور کہنے لگا تو مجھ پر ایسے (جھوٹے) دعوے کر رہا ہے۔ لوگ جمع ہوگئے اور حاجی سے کہنے لگے کہ جس شخص پر تو دعویٰ کر رہا ہے، نہایت نیک شخص ہے۔ حاجی حیرت میں تھا اور بار بار اپنی بات لوگوں کو سناتا تھا۔ (غریب الوطن کی کون سنتا سوائے رب تعالی کے) مگر سوائے گالیوں اور مار پیٹ کے اس کو کچھ نہ ملا۔ آخر ہر جگہ اور صالح لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔
خدا کے کسی نیک بندے نے تنہائی میں کہہ دیا کہ بادشاہ (عضد الدولہ) کے پاس جاؤ، ان کو ایسے امور میں حق تعالیٰ نے بڑی فراست دی ہے۔ تو اس حاجی نے اپنا پورا واقعہ لکھ کر کسی مقرب کی معرفت بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس کو آواز دی گئی تو یہ حاضر ہوا۔ اس سے پورا واقعہ معلوم کر کے فرمایا کہ تم کل صبح جا کر اس عطار کی دکان پر بیٹھ جاؤ، اگر وہ نہ بیٹھنے دے تو اس کے سامنے کسی دکان پر بیٹھ جاؤ اور مغرب تک بیٹھے رہو۔ اس سے بات نہ کرو، اسی طرح تین دن کرو، چھوتے دن ہم ادھر سے گزریں گے اور ہم کھڑے ہوکر تم سے السلام علیکم کریں گے، تم نے کھڑے نہیں ہونا اور نہ وعلیکم السلام سے آگے کوئی اور لفظ بولنا، جو کچھ میں تم سے سوال کروں، صرف اسی سوال کا بیٹھے بیٹھے جواب دینا اور کچھ نہ کہنا۔
پھر ہماری واپسی کے بعد تم اس عطار سے اپنے اس ہار کا ذکر چھیڑ دینا، پھر جو کچھ وہ تم کو جواب دے، اس کی اطلاع مجھ کو دینا۔ اگر وہ تم کو ہار واپسی کر دے تو اس ہار کو لے کر ہمارے پاس آجانا (ہے کوئی اس دور کا حکمران جو ایک مظلوم کے حق دلانے میں اتنی محنت اور دانشمندی کا ثبوت دے؟)
اس ہدایت کے مطابق یہ شخص عطار کی دکان پر بیٹھنے کے لئے پہنچا، مگر اس نے نہ بیٹھنے دیا۔ تو وہ سامنے کی دکان پر بیٹھ گیا اور تین دن تک بیٹھتا رہا۔ جب چوتھا دن ہوا تو عضد الدولہ ایک شاندار جلوس کے ساتھ ادھر آئے اور جب اس خراسانی کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور السلام علیکم کہا۔ اس نے اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ہی وعلیکم السلام کہا۔ بادشاہ نے کہا بھائی صاحب آپ یہاں تشریف لائے ہیں۔ (یہ ساری گفتگو خائن اور ظالم عطار اور عوام سن رہے تھے) مگر ہم سے نہیں ملے، نہ کوئی خدمت ہمارے سپرد کرتے ہو۔
اس نے جواب میں جیسا کہ طے ہوا تھا، لمبی گفتگو سے بچتے ہوئے، معمولی ہاں ہوں کی۔ بادشاہ اس سے اصرار کرتے رہے اور کھڑے رہے اور ان کی وجہ سے پورا لشکر بڑے بڑے آفیسر سب ادب سے کھڑے رہے۔ اس سے لوگوں کو یقین ہوگیا کہ یہ شخص بادشاہ کا بڑا محترم دوست ہے اور اس عطار پر غشی طاری ہونے لگی۔
جب بادشاہ رخصت ہوگئے تو عطار نے حاجی سے کہا کہ صاحب یہ بڑا افسوس ہے کہ آپ نے یہ نہ بتایا کہ وہ ہار آپ نے ہمارے پاس کس زمانے سے رکھا تھا اور وہ کسی چیز سے لپٹا ہوا تھا۔ آپ مجھے یاد دلائیں، شاید یاد آجائے۔ اس نے اس کو سب کچھ بتایا، اب وہ ڈھونڈنے کے لئے کھڑا ہوا، ادھر ادھر ہاتھ مارنے کے بعد ایک تھیلا الٹایا، جس میں سے ہار گرا۔ تو کہنے لگا درحقیقت میں بالکل ہی بھول گیا تھا۔ اگر تم حال نہ بتاتے تو اب بھی یاد نہ آتا (جبکہ وہ مسکین کئی دن سے اس کے سامنے روتا رہا) اس نے اپنا ہار لے لیا۔ اب حاجی نے اپنے دل میںکہا کہ اب بادشاہ کو بتانے سے کیا فائدہ ہوگا۔ پھر اس کو خیال آیا کہ شاید بادشاہ ہی خریدلے، تو ان کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کیا۔
بادشاہ نے اس کے سامنے اپنے حاجب (محافظ) کو وہ ہار دے کر عطار کی دکان پر بھیجا۔ جس نے عطار کر پکڑ کر وہ ہار اس کے گلے میں ڈال دیا اور اس کو دکان کے دروازے پر ہی پھانسی دے کر لٹکا دیا اور منادی کرا دی گئی کہ یہ اس شخص کر سزا ہے کہ جس کے سپرد ایک امانت رکھی گئی، مگر وہ جاننے کے باوجود منکر ہوگیا اور بے گناہ ایک مسافر کو پریشانی میں مبتلا کئے رکھا۔ جب دن گزر گیا لوگوں کو عبرت حاصل ہوگئی۔ تو حاجب نے اس کی گردن سے ہار نکل کر حاجی کے سپرد کر دیا اور جانے کی اجازت دے دی۔ وہ دعائیں دیتا ہوا واپس لوٹا۔ (کتاب الاذکیاء ص 76 مصنف علامہ امام ابن جوزؒی)
٭٭٭٭٭