بڑی عمر میں سفر کرنا چاہئے یا نہیں؟ (آخری حصہ)

0

میں یہ نصیحتیں نہ صرف دوسروں کو کرتا ہوں ، بلکہ خود کو بھی سمجھاتا رہتا ہوں کہ اس عمر میں سفر پر نکلنا ٹھیک نہیں ہے۔ آخر کار میں بھی 74 برس کا ہوگیا ہوں۔ ہمارے ملک میں ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال ہے۔ لیکن یہاں ملائیشیا، سنگاپور سے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا تک ریٹائرڈ ہونے کی عمر 55 برس ہے۔ انہوں نے یہی تجربہ کیا ہے کہ ذہنی اور جسمانی کام کا بہتر رزلٹ زیادہ سے زیادہ باون یا ترین سال تک مل سکتا ہے۔ اس کے بعد انسان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جب مہاتیر محمد اپنے ملک کے وزیر اعظم تھے تو انہوں نے ملک کے تمام سرکاری دفاتر کو حکم نامہ جاری کیا تھا کہ ’’آفس میں کوئی بھی پچاس برس سے زیادہ عمر کا شخص کسی کام کے سلسلے میں آئے تو اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے اور فوری طور پر اس کا کام نمٹایا جائے، کیونکہ اس عمر کے بعض لوگ بے صبر، جلد باز اور تند مزاج ہوتے ہیں۔ اس لئے سرکاری افسران کا فرض ہے کہ اس عمر کے لوگوں کا خاص خیال رکھیں؟‘‘
مہاتیر محمد میڈیکل کے ڈاکٹر ہیں۔ وہ یقیناً جانتے ہیں کہ انسان پچاس برس کے بعد تیزی سے بوڑھا ہونے لگتا ہے۔ یورپ کے کئی ملکوں میں وہاں کے پچاس برس کے لوگوں کو ’’سینئر سٹیزن‘‘ یعنی بزرگ شہری کا خطاب ملتا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں پچاس یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ اگر وہ کسی دوسرے ملک کا سفر کریں تو اپنا ’’اولڈ ایج ٹریول‘‘ انشورنس ضرور کرائیں۔
انگریزی میں پیری کے لئے کہتے ہیں:
"Old age Creeps Upon a person like thief in the night”
پیری بھی گربہ چال چلتی زندگی میں خاموشی سے داخل ہو جاتی ہے۔ خواہ زبان سے کوئی کچھ بھی ڈینگیں مارتا رہے، لیکن اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ ورزش کرنے اور پیدل چلنے سے ہانپنے لگا ہے۔ ہاتھوں میں ہلکی سی کپکپاہٹ محسوس ہونے لگی ہے۔ یاد داشت متاثر ہونے لگی ہے… بالوں کا سفید ہونا اور جلد پر جھریاں پڑنا تو لازمی ہے۔
دل کو بہلانے اور خود کو بوڑھا تسلیم نہ کرنے کے لئے مرد حضرات نے کئی محاورے بھی گھڑ لئے ہیں۔ اس معاملے میں نہ صرف ہم ایشیائی، بلکہ افریقی اور انگریز بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ انگریز خود کو کچھ زیادہ ہی عقل مند سمجھتے ہیں۔ وہ بھی بوڑھا کہلانے کے بجائے خود کو جوان قرار دینے کے لئے عموماً کہتے ہیں:
"A person is as old as he feels”.
کبھی کہتے ہیں کہ انہوں نے سالگرہ منانا چھوڑ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ گھڑی کی سوئیوں کو ہاتھ سے روکنے سے کیا وقت ٹھہر سکتا ہے؟
کئی بوڑھے کہتے ہیں: ’’آئم ریٹائرڈ بٹ ناٹ ٹائرڈ‘‘۔
یعنی ہم نوکری اور ملازمت وغیرہ سے ضرور سبکدوش ہوگئے ہیں، لیکن تھکے ہرگز نہیں ہیں۔ عمر رسیدہ شخص دیگر معاملات میں تھکا ہوا ہو یا نہیں، لیکن سفر جوانوں کو بھی تھکا دیتا ہے۔ اس لئے پیرسن افراد کو سفر سے، خاص طور پر بیرون ملک کے سفر سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اس بات پر گورے، خواہ وہ انگریز ہوں یا یورپی، عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں بیرون ممالک کے ایئر پورٹس پر جو اکا دکا بوڑھے گورے نظر آتے ہیں انہیں ’’اکا دکا‘‘ ہی سمجھنا چاہئے۔ ان کی اکثریت دولت ہونے کے باوجود سفر پر نکلنے کے بجائے اپنے شہر کے سمندری کنارے پر پورا دن گزارنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
ایک بوڑھی انگریز عورت کا قصہ مشہور ہے کہ جب وہ جوان تھی تو اسے مختلف ممالک کی سیر کرنے کا بہت شوق تھا۔ وہ سفر کے لئے رقم حاصل کرنے کے لئے ہر مہینے کچھ پیسے جمع کرکے لاٹری کے ٹکٹ خریدتی تھی۔ لیکن لاٹری میں اس کا کبھی انعام نہ نکلا۔ بوڑھی ہونے کے بعد بھی وہ عادت سے مجبور ہوکر کبھی کبھی لاٹری کا ٹکٹ خرید لیتی تھی۔
اس کے پڑوسی بتاتے ہیں کہ جب وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچی تو ایک دن اچانک اس کی لاٹری نکل آئی۔ ایک
کثیر رقم ملنے کا سن کر خوش ہونے کی بجائے اسے شدید شاک پہنچا اور اس کا ہارٹ فیل ہو گیا۔ اس کی موت اس صدمے سے ہوئی تھی کہ اس عمر میں جب وہ کسی سفر کے قابل نہیں رہی تو اس کے لئے سفر کا انتظام ہوگیا ہے۔
آنجہانی ہوجانے والی خاتون کے ایک پڑوسی نے مسکراتے ہوئے کہا تھا: ’’بڑھیا کو سفر کا بہت شوق تھا۔ خدا نے اس کی سن لی اور اسے بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے ایک طویل سفر پر بلالیا‘‘۔
جوانی میں طے شدہ پروگرام کے مطابق میں نے بھی پچاس برس عمر ہونے کے بعد بیرون ملک کے سفر سے دور رہنا چاہا تھا، بلکہ اس پر سختی سے عمل کرنا چاہا تھا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آب و دانہ کا بھی ایک اثر ہوتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی سفر کا کوئی نہ کوئی سبب نکل آتا ہے اور پھر کبھی شوق اور کبھی مجبوری میں سفر پر نکلنا پڑتا ہے۔ کبھی کسی یونیورسٹی میں لیکچر دینے کے لئے اور کبھی کوئی سیمینار اٹینڈ کرنا ناگزیر ہو جاتا۔ خود میں طویل اور بیرون ملک کے سفر کی ہمت نہ پاکر تذبذب کا شکار ہو جاتا ہوں کہ جاؤں یا نہ جاؤں…! ہر سفر کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنے آپ سے وعدہ کرنا پڑتا ہے کہ بس! اب اپنے ملک سے باہر کہیں نہیں جانا۔
بہرحال اب میں ملائیشیا سے ہوکر آیا ہوں، ظاہر ہے سفر نامہ تو ضرور لکھوں گا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More