اگست گزرنے والا ہے۔ تھر اب تک پیاسا ہے۔ اگست کا مہینہ تو تھر میں اس بارش کا مہینہ ہوتا ہے، جو بارش تیز ہوتی ہے۔ جو بارش ٹکاؤ ہوتی ہے۔ جس بارش کی بوندیں چاندنی راتوں میں سونے کی طرح اور بھور بھئی کے وقت چاندی کی طرح چمکتی رہتی ہیں۔ تھر میں بارش صرف انسانوں کے لیے نہیں ہوتی۔ شاہ لطیف نے لکھا ہے:
’’بارش کو صرف انسان ہی نہیں
پرندے اور جانور سب بلاتے ہیں‘‘
وہ پرندہ اس بار پورا ماہ خاموش رہا، جو پرندہ اہلیان تھر کو بارش کی اس وقت اطلاع دیتا ہے، جب آسمان سے دھوپ اتری ہوتی ہے اور پورا صحرا کسی ٹوٹے ہوئے فرینچ واز کی طرح اپنے سارے بکھرتے اور سمٹتے ہوئے ذروں سے جگمگاتا رہتا ہے۔ تھر میں اس پرندے کو ’’تاڑو‘‘ کہتے ہیں۔ تاڑو پرندہ جب بولتا ہے تب تھر کے لوگوں کے چہروں پر خوشی بکھر جاتی ہے۔ وہ کسی بھی کام میں چاہے کتنے بھی مگن ہوں، مگر سر اٹھا کر اور مسکرا کو آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ آسمان جو بہت جلد بادلوں سے گِھر جاتا ہے۔ وہ آسمان جس پر بجلیاں مچلتی ہیں۔ وہ آسمان جہاں سے کبھی تیز اور کبھی آہستہ پانی اس طرح گرتا ہے کہ صحرائی تالاب کسی پیانو کی طرح بجنے لگتا ہے اور پورا صحرا ایک بھیگا ہوا گیت بن جاتا ہے۔ اس بار تھر کے مردوں نے، تھر کی عورتوں نے اور تھر کے بچوں نے بارش کا گیت نہیں سنا۔ اس بار تھر کے ہرنوں نے اور تھر کے موروں نے بادلوں کے برستے ہوئے پانی میں رقص نہیں کیا۔ ان کی آنکھیں اس بار خالی خالی رہیں۔ کل بادل نہیں برسے اور آج تھر میں کہیں کوئی ہریالی نہیں ہے۔
یہ وہی تھر ہے، جو پچھلے برس سندھ کا سب سے بڑا پکنک پوائنٹ بن گیا تھا۔ اب اس وقت کی صرف یادیں ہیں۔ وہ کاروں کی طویل قطاریں اور وہ جگہ جگہ گروپ فوٹوز اور وہ بہت ساری سیلفیاں جن کے پس منظر میں تھر کے میلے بچے مسکراتے نظر آتے ہیں۔ وہ لمبے راستے اب دن کو بھی سنسان ہونے لگے ہیں، جن پر رات کے وقت چلتی گاڑیوں کی روشنی موج زر کی امڈتی آتی تھی۔ اس سال تھر والے تنہا نہیں تھے۔ ان کے ساتھ اہلیان سندھ کی محبتیں تھیں۔ مگر وہ سب کچھ بادلوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب بادل برستے ہیں تب پردیسی بھی دیس میں آجاتے ہیں اور جب بادل نہیں برستے تو دیسی بھی پردیسی بن جاتے ہیں۔ اس بار بادل نہیں برسے۔ اس بار بادل اتنے بھی نہیں برسے کہ تھر کی سرزمین سانس لے سکے۔ تھر میں بارش کا مطلب ایک سرکل کا پورا ہونا ہوتا ہے۔ بارش کا مطلب یہ نہیں کہ صرف بادل آئے، ایک ہی بار برسے، بہت برسے اور بس۔ تھر میں بارش کے مراحل ہوتے ہیں۔ ایک بارش زمین کو جگاتی ہے۔ دوسری بارش زمین کو نرم اور نم کرتی ہے۔ تیسری بارش بیجوں کو کونپل بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ پھر نازک کونپلوں پر بارش کی موہوم سی بوندیں گرتی رہتی ہیں اور تھر مہک اٹھتا ہے۔ تھر والے یہ نہیں جانتے کہ مور اور بادل کہاں سے آتے ہیں؟ مگر تھر والوں کو یہ معلوم ہے
کہ تھر میں بارش بھی ایک مسافر کی طرح سفر کرتی ہے۔ وہ بارش جو ایک چرواہے کی طرح بادلوں کی ساری بھیڑیں ساتھ لے کر سفر کرتی ہے، وہ ہر موڑ سے گزرتی ہے۔ وہ اپنی منزل تک تب پہنچتی ہے، جب ہر شہر میں بوندوں کی پائل کا شور مچاتی ہے اور ہر گاؤں کو گیلا کرتی ہے۔
اس بار تھر کے سارے شہر اور دیہات بارش کی راہ تکتے رہے، مگر بادل نہیں آئے۔ تھر کے وہ آٹھ حصے جو مل کر تھر کی
تشکیل کرتے ہیں، وہ آٹھوں حصے خشک اور ناخوش ہیں۔ اس بار پارکر پر بھی بادل نہیں برسے، جہاں مشہور پہاڑ
کارونجھر ہے۔ جب بارش برستی ہے، تب کارونجھر کے دامن سے بہت سارے آبشار مست ہوکر نکلتے ہیں اور ان کی دھارائیں ناچتی گاتی صحرائی دیہاتوں میں بہت دور دور چلی جاتی ہیں۔ اس بار آپ اگر کسی ننگر پارکر کے باسی سے پوچھیں گے کہ ’’بارش کا کیا ہوا؟‘‘ تب وہ آپ سے کہے گا کہ ’’اس بار تو موروں کے پنکھ بھی نہیں بھیگے۔‘‘ بات صرف پارکر کی نہیں ہے، مگر سامروٹی میں بھی بارش نہیں ہوئی۔ وہ سامروٹی جس کے بارے میں شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ:
’’اچانک تم ملو گی
سامروٹی میں کبھی‘‘
اس بار سامروٹی سے بادل نہیں ملے۔ وہ صحرائی بستی بادلوں سے مل کر نہ رو سکی اور نہ ہنس سکی۔ اس بستی کے ہونٹوں پر قہقہے رکے رہے اور اس بستی کی آنکھیں اس پانی سے محروم رہیں، جس پانی کو خوشی کے آنسو کہتے ہیں۔
اور صرف سامروٹی؟ اس بار نہ وٹ پر بادل برسے ہیں اور نہ ڈھٹ پر بجلیاں چمکی ہیں۔ اس بار تو مہرانو بھی مایوس رہا اور اس کنٹھو پر بھرے ہوئے بادل مہربان نہیں ہوئے، جو اپنے حسن کی وجہ سے مشہور ہے۔ تھر کے مشہور علاقے پارکر میں ایک جگہ نام ہے ’’کجلا سر‘‘ اس جگہ کے لیے مشہور ہے کہ وہاں نوجوان لڑکیوں صبح کو ہاتھ منہ دھونے آتی تھیں اور ان کی آنکھوں کے کاجل کی وجہ سے اس تالاب کا پانی سانولا ہو جاتا تھا۔ اس بار بارش نہ ہونے کی وجہ سے کجلا سر بھی سوکھا رہے گا اور اس کے کنارے کاجل دھونے کے بہانے رونے کون آئے گا؟
تھر صرف بہت بڑے علاقوں کا نام نہیں ہے۔ تھر ان بہت سارے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کا مجموعہ ہے۔ وہ سارے دیہات اپنی غم سے بھری ہوئی آنکھوں سے دیکھتے رہے ان بادلوں کو جو تھوڑی دیر کے لیے آتے اور پھر چلے جاتے اور کافی دنوں تک واپس نہ آتے۔ بادلوں کا انتظار صرف مہرانو میں نہیں ہوا۔ بادلوں کا انتظار صرف مٹھی میں نہیں ہوا۔ بادلوں کا انتظار ہریار میں بھی ہوا۔ بادلوں کا انتظار پابوہر میں بھی ہوا۔ بادلوں کا انتظار رانا گھر نامی اس گاؤں میں بھی ہوا، جہاں کا تالاب بہت مشہور ہے۔ بادلوں کے لیے گوڑیا، سنت شو رام، ساریو ہالیپوٹو اور وہ کھوکھرا پار بھی انتظار کرتا ہے، جہاں سرحد پار والے مونا باؤ سے ٹرین آتی اور جاتی ہے۔ آج اس جگہ جانو جو چونرو اپنی خاموش نظروں سے نیلے آسمان کو دیکھتا رہا، جس پر دل کو سہارا دینے کے لیے کوئی بادل کا ٹکڑا نہیں تھا۔
بارش کا انتظار کرنے والی آنکھوں میں خوبصورت عورتوں کے حوالے سے مشہور علاقے کاسبو کی آنکھیں بھی شامل تھیں۔
کیا تھر صرف فطرت کے حسن اور رومانوی مناظر کی داستان ہے؟ تھر درد کا گھر ہے۔ اس درد کا گھر جو درد ان
ماؤں کے دلوں میں مچلتا ہے، جو اپنے بیمار بچے لے کر مٹھی کے اسپتال میں آتی ہیں اور چند دنوں کے بعد اپنے بچے کی لاش میلی چادر میں لپیٹ کر لوٹ جاتی ہیں۔ جب بارش نہیں ہوتی تب صرف کارونجھر کے مور ہی نہیں مرتے، بلکہ وہ بچے بھی مر جاتے ہیں، جو تھر کی مائیں پیروں فقیروں کی
درگاہوں سے دعا مانگ کر پاتی ہیں۔ وہ مائیں بادل نہ برسنے سے مر جانے والے بچوں کی وجہ سے یتیم ہو جاتی ہیں۔ وہ یتیمی ان کے لیے پوری زندگی قطرہ قطرہ زہر پینے جیسی ہوتی ہے۔ ابھی چند دن قبل سندھی میڈیا کی معرفت معلوم ہوا کہ مٹھی کے اسپتال میں تھر کے غریب بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے مرنے لگے ہیں۔ مگر اب تک تھر کے حوالے سے میڈیا نے ایسا شور نہیں مچایا، جس سے حکمرانوں کی سماعت پر تھر کے درد کی صدا پہنچ پائے۔ ہمارے حکمرانوں کا نیا المیہ یہ ہے کہ ان کی اپنی آنکھیں کھو چکی ہیں اور وہ اب عوام کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ کیمرے کی آنکھ سے عوام کو دیکھنے والے حکمرانوں کو اب تک تھر میں پلتا ہوا انسانی المیہ نظر نہیں آیا۔
اصل سوال یہ ہے کیا تھر کو ’’نئے پاکستان‘‘ میں بھی پرانے انداز سے دیکھا جائے گا؟ تھر میں انگریزوں کے دور سے لے کر انتظامی طور پر یہ سسٹم چلتا ہے کہ جب اگست کے پہلے دو ہفتوں تک بارش نہیں ہوتی تو تھر کو آفت زدہ علاقہ قرار دیا جاتا ہے اور اس سسٹم کے تحت تھر کے ہر گھر کو بیس تیس من گندم دی جاتی ہے۔ مگر کیا انسان صرف گندم کھاتے ہیں؟ تھر میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے درخت سوکھے ہوئے ہیں اور جانور بھوکے مر رہے ہیں۔ وہ جانور جن کا دودھ اہلیان تھر کے لیے زندگی کا بہت بڑا سہارا ہے۔ تھر میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے جانوروں میں وبائی امراض پھوٹتے ہیں اور بڑے بچوں کے بانہوں میں چھوٹی بکریاں اس طرح مر جاتی ہیں، جس طرح پابلو نرودا کی بایو گرافی میں وہ ہنس مر جاتا ہے۔ اس ہنس کے بارے میں اس نے لکھا تھا کہ ’’اتنا بڑا اور خوبصورت ہنس میں نے پوری زندگی میں نہیں دیکھا‘‘ جب بارش نہیں ہوتی تو درخت اجڑ جاتے ہیں اور غریب لوگ سوکھے ہوئے درختوں سے چھنتے دانے کھاتے ہیں اور ان کا منہ سوج جاتا ہے۔ ان کی زبان زخمی ہو جاتی ہے۔
تھر میں بارش ہوتی ہے تو پورا سندھ اپنے تمام مڈل کلاس نوجوان کے ساتھ امڈ آتا ہے۔ اس وقت تھر سے محبت کے گیت سوشل میڈیا کی جان بن جاتے ہیں۔ تھر میں بارش ہونے کے بعد جب سبز اور نرم گھاس لہراتی ہے، تب وسیع وادیاں ایک پینٹگ کی طرح نظر آتی ہیں۔ وہ پینٹنگ جسے کوئی مصور محبت سے بنائے، مگر جب بارش نہیں ہوتی، تب فطرت کے مصور کے سارے رنگ رونے لگتے ہیں۔ تھر میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے صحرا کی آنکھوں میں پانی کی بوند نہیں بچی۔ تھر کا صحرا رونا چاہتا ہے، مگر رونے کے لیے بھی آنسو کہاں سے لائے؟ وہ صحرا جس کے بارے میں ہر دور کے حکمرانوں نے صرف دعوے کیے ہیں۔ وہ تھر جہاں کوئلے کے بہت بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور اس کوئلے سے پورے ملک کی قسمت سنور جانے کی باتیں بھی اب پرانی ہو چکی ہیں اور یہ سب کچھ کہے اور سنے جانے کے بعد بھی تھر میں بارش نہ برسنے سے اگر تھر آفت زدہ علاقہ بن جاتا ہے اور وہاں سب سے پہلے غریب ماؤں کے مور مرنے لگتے ہیں تو پھر ہمارے حکمرانوں کو اپنے دعوؤں کے آئینے میں اپنا چہرا دیکھنا ہوگا۔
تھر میں بارش خوشی کا گیت ہے۔ جب تھر خوشی کا گیت بن جاتا ہے تب مور ناچنے آجاتے ہیں، مگر جب صحرا پر بوندیں نہیں برستیں، تب صحرا درد کی صدا بن جاتا ہے۔ وہ درد کی صدا کوئی نہیں سنتا۔ کوئی نہیں سنتا۔ وہ صدا بازگشت بن کر تھر کی صحراؤں سے اس طرح ٹکراتی رہتی ہے، جس طرح فیض نے لکھا تھا:
’’ہمیں سے اپنی صدا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہتی‘‘ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post