ڈان فلڈ (پروفیسر یحییٰ) ایک امریکی نو مسلم ہیں۔ وہ اپنے اسلام قبول کرنے کی ایمان افروز داستان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر سوسائٹی میں کچھ خوبیاں ہوتی ہیں اور کچھ خامیاں بھی، امریکی سوسائٹی کا طرئہ امتیاز یہ رہا ہے کہ ہر فرد اپنی مرضی سے اپنے لیے راہِ عمل اختیار کر سکتا ہے، یہاں تک کہ گھریلو زندگی میں بھی اکثر والدین بچوں کی مرضی اور طرزِ حیات میں زیادہ مخل نہیں ہوتے، بلکہ اکثر بچے مذہبی اور ذاتی امور عین اپنی مرضی سے طے کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں گھریلو زندگی میں متضاد نظریات کے باوجود والدین اور بچے ایک دوسرے سے رواداری سے پیش آتے ہیں۔
نائن الیون کے واقعے سے قبل تک امریکی سوسائٹی اسی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ میں امریکہ کے شہر ٹرینٹن، نیو جرسی (Trenton, New Jersy) میں پیدا ہوا، میرے والد صاحب ایک انجینئر تھے، چونکہ امریکی سوسائٹی میں نقل و حرکت بہت زیادہ ہے، ان کا تقرر مختلف شہروں اور ملکوں میں ہوتا رہا۔ مثلاً میں نے ابتدائی تعلیم ریاست انڈیانا (Indiana) میں شروع کی، لیکن ہائی اسکول کے دوران مجھے والد صاحب کے ساتھ ایک دوسرے ملک برازیل (Brazil) جانا پڑا۔ میں والدین کے ہمراہ برازیل میں چھ ماہ رہا۔ مجھے وہاں ایک بالکل نئی اور انوکھی تہذیب نظر آئی۔ وہاں کی زبان بھی مختلف تھی۔ مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ امریکی طرزِ حیات کے علاوہ زندگی بسر کرنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ اس سے میرے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوئی۔ میں اس نئی زبان اور تہذیب کی مٹھاس سے سرشار ہونا چاہتا تھا، اس لیے میں نے پرتگالی (Portuguese) اور ہسپانوی (Spanish) زبانیں سیکھ لیں۔ اِس وقت میں پرتگالی زبان تو بھول چکا ہوں، البتہ ہسپانوی زبان سے ابھی بھی کام چلا لیتا ہوں۔ جب میں والدین کے ہمراہ واپس امریکہ آیا تو میں نے ہائی اسکول کی باقی ماندہ تعلیم انڈیانا ریاست میں ہی مکمل کی۔ اس کے بعد میں نے ٹیکساس کی یونیورسٹی (University of Texas) میں بزنس ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لیا، تاکہ مستقبل میں ایک اچھی نوکری حاصل کر سکوں۔
ایک دن میں اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا لاطینی امریکہ کی تہذیب کے بارے میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا، اس کے مطالعے سے مجھے محسوس ہوا کہ بزنس ایڈمنسٹریشن بہت خشک مضمون ہے اور لاطینی امریکہ کی تہذیب بہت دلچسپ ہے، اس لیے میں کالج گیا اور بزنس ایڈمنسٹریشن کو خیرباد کہہ کر لاطینی امریکہ سے متعلقہ مضامین چن لیے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ میرے والدین میرے ذاتی معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی نہ کرتے تھے۔ اب میں نے پبلک لائبریری سے کئی اور تہذیبوں مثلاً بدھ مت اور ہندو مت سے متعلقہ کتابیں بھی حاصل کیں تاکہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کی سوچ اور طرزِ معاشرت سے مستفید ہو سکوں۔
ایک عجیب واقعہ: کالج میں میرا ایک ہندو دوست تھا، اس نے مجھے بتایا کہ آج شام ایک چرچ میں گھریلو پکا ہوا کھانا ہے، اگر میں اس کے ہمراہ اس دعوت پر جاؤں تو وہ میرا تعارف اپنے سعودی دوست سے کروائے گا۔ بطور طالب علم ہم کسی گھریلو کھانے کی دعوت کو نظر انداز نہیں کرتے تھے، پس ہم اس چرچ گئے اور وہاں ایک سعودی طالب علم سے میرا تعارف کرایا گیا۔ کھانا بہت لذیذ تھا اور ہم نے خوب دل بھر کر کھایا۔ کھانے کے اختتام پر ایک پادری صاحب کھڑے ہوئے اور بورڈ پر لکھی ہوئی عبارت کو گا گا کر پڑھنے لگے۔ ہمیں بھی اپنے ساتھ دہرانے کو کہا۔ اس پر ہمارا سعودی دوست ابوحسین پھرتی سے کھڑا ہو گیا اور ہمیں اس مجلس کو خیرباد کہنے کا اشارہ کیا۔ ہماری میزبان لڑکی نے کافی کوشش کی کہ ہم رک جائیں، لیکن ابوحسین نے دوٹوک کہا: ہمارا اس مجلس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا، پس ہم چرچ سے باہر آ گئے۔ اس واقعے نے ہمیں قریب تر کر دیا، یہاں تک کہ ہم نے باہمی طے کیا کہ ہم سب مل کر ایک مکان کرائے پر لیں گے اور اس میں مل جل کر زندگی بسر کریں گے، چند دنوں بعد ایک ایرانی طالب علم بھی ہمارے ساتھ اس مکان میں رہنے لگا۔
اس طرح مجھے کئی تہذیبوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، مجھے دوسرے ملکوں کے کھانے بہت پسند تھے۔ میں نے ان دوستوں سے کھانے پکانے سیکھے اور انگلیاں چاٹ چاٹ کر کھاتا۔ یہاں دورانِ رہائش میری نظر سے کئی انوکھی چیزیں گزریں، مثلاً میرے ساتھی کھانا ہاتھ سے کھاتے نہ کہ چمچ سے، وہ کھانا کھانے کے لیے زمین پر بیٹھنا پسند کرتے، کھانے کی میز اور کرسیوں پر انہوں نے کبھی بھی کھانا تناول نہ کیا، علاوہ ازیں مجھے یہ سمجھ نہ آتی تھی کہ وہ غسل خانہ جاتے ہوئے پانی سے بھرا برتن کیوں ساتھ لے کر جاتے ہیں؟ بہت بعد میں سمجھ آئی کہ یہ سب اسلامی طریقے ہیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭