’’زندگی کاسفر‘‘

0

ڈاکٹر صابر حسین خان

سفر کسی بھی طرح کا ہو، آدمی کو تھکا دیتا ہے اور اگر سفر مستقل ہے اور کسی مخصوص منزل کے تعین کے بِنا ہو تو تھکن میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ اور سونے پر سُہاگا، سفر اگر کسی ذاتی غرض، ذاتی مفاد سے بالا ہو تو کبھی کبھی تمام تر افلاطونی اور آفاقی فلسفوں اور نظریوں کے باوجودہمیں ذہنی، جذباتی اور جسمانی سطح پر اتنا تھکا دیتا ہے کہ پھر چاہنے نہ چاہنے کے باوجود ہمیں کچھ دیر کیلئے سفر کا سلسلہ روکنا پڑتا ہے۔ خود کو آرام اور سکون کے سپرد کرنا پڑتا ہے۔ رُکنا پڑتا ہے۔ ٹھہرنا پڑتا ہے اور جو ایسا نہ کیا جائے تو پھر ہمارے اندر آہستہ آہستہ ایسی جسمانی، ذہنی اور رویّہ جاتی علامات پیدا ہونے لگتی ہیں جو نفسیاتی اصطلاح میں BURN OUT SYNDROME کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ اِس سنڈروم سے بچنے اور خود کو بچانے کیلئے ہمیں Rest اور Relaxation کی ضرورت پڑتی ہے۔
صحیح وقت پر اگر گاڑی کا گرم انجن بند نہ کیا جائے اور اُسے کچھ وقت کیلئے بند نہ رکھا جائے تو اچھی سے اچھی طاقتور انجن کی حامل گاڑی بھی ایک نان اسٹاپ لمبے سفر کے بعد جواب دے جاتی ہے۔ اِنسان کی مشینری بھی کام کے بعد آرام کی متقاضی ہوتی ہے۔ لیکن ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو چونکہ زندگی کے کسی بھی معاملے میں صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسے موقعوں پر بھی صحیح وقت پر درست اندازہ نہیں لگا پاتے کہ کب ہمیں اپنا سفر روک کر اپنے انجن کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ کب اپنی لالچ کے Accelerator پر سے پائوں ہٹا کر قناعت کے Brakes دبانے میں کتنے کلومیٹر کے کاموں کو پورا کرنے کے بعد کتنی دیر کا ریسٹ لینا ہے۔ اپنے آپ کو کتنا Relief دینا ہے۔
نتیجتاً ڈیش بورڈ پر پہلے ریڈ سگنل آتا ہے۔ پھر بیپ بیپ کی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے اور پھر یکدم انجن جھٹکے لے لے کر رُک جاتا ہے۔ دانا اور سمجھدار لوگ عام طور پر پہلے ریڈ سگنل پر ہی اپنی گاڑی اور اپنی زندگی کے سفر کو روک دیتے ہیں اور جو نارمل سے بھی زیادہ دانا اور ہوشیار ہوتے ہیں، وہ ریڈ سگنل کے آنے سے پہلے ہی کسی سایہ
دار مقام پر اپنی گاڑی روک کر نیچے اُتر آتے ہیں۔ آرام کرتے ہیں۔ ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ٹیوننگ اور اوور ہالنگ کرتے ہیں۔ اپنا، اپنی گاڑی اور اپنی زندگی کا Oil تبدیل کرتے ہیں۔ کاربوریٹر میں سے کچرا صاف کرتے ہیں۔ ضرورت ہوتو پلگ بھی بدل ڈالتے ہیں۔ پہیّوں کی ہوا اور ریڈی ایٹر کا پانی چیک کرتے ہیں اور ازسرِنو تیاری کے بعد دوبارہ سفر پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
نہ کوئی سفر مستقل ہوتا ہے۔ نہ مستقل کیا جاسکتا ہے۔ وقفہ صحت کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ نہ مستقل لکھا جاسکتا ہے۔ نہ مستقل پڑھا جاسکتا ہے۔ مستقل جاگتے رہنے سے جس طرح ذہنی توازن پلٹ جاتا ہے اور مناسب نیند نہ لینے سے مزاج میں اُداسی اور چڑچڑاپن پیدا ہوتا ہے۔ اِس طرح کوئی بھی کام مستقل کرتے رہنے سے ہمارا نروس سسٹم یا اعصابی نظام آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ قدرت نے چونکہ ہمارے اعصاب کو فطری طور پر بہت زیادہ طاقتور بنا یا ہے تو شروع شروع میں ہمیں اِس ٹوٹ پھوٹ کا عِلم نہیں ہو پاتا۔ بظاہر سب کچھ صحیح دِکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ سب کچھ صحیح چل رہا ہوتا ہے اور ہم اطمینان اور سکون سے اپنے اپے کاموں میں آگے بڑھنے اور Excellence پانے کیلئے 20 – 20 گھنٹے لگے رہتے ہیں۔
عام طور پر ہمارے اِن کاموں کا ننانوے فیصد حصّہ اپنی مادّی ترقی اور خوشحالی کے ذرائع اکھٹے کرنا ہوتا ہے اور باقی ایک فیصد اِن کاموں میں سہولت پیدا کرنے والے کاموں کو کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً نہانا دھونا، صاف اور اچھے کپڑے خریدنا اور پہننا، جوتوں کو پالش کرنا، بال سنوارنا، شیو بنانا، کھانا اور سونا۔ بظاہر یہ کوئی بُرا عمل نہیں۔ دنیا کے سبھی لوگ اِسی پیٹرن میں زندگی گزاررہے ہیں یا گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سب روزانہ کے کام عموماً ہماری فطرتِ ثانیہ بن جاتے ہیں۔ اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ روز کے اِن کاموں میں ہماری کتنی توانائی، کتنا وقت اور کتنے وسائل خرچ ہورہے ہیں۔ یہ سب کام ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر اوقات ہم اپنی اُفتاد طبع کی وجہ سے اِن میں اتنا اہتمام اور اتنے تکلّفات پیدا کرڈالتے ہیں کہ روز مرّہ کے کاموں کی ایک وزنی گٹھری ہمارے سروں پر سوار رہتی ہے اور ہمیں اپنا سفر اِس اضافی بوجھ کے ساتھ طے کرنا پڑتا ہے۔
بوجھ تو بوجھ ہوتا ہے اور مستقل رہنے والا بوجھ ہمیں جلدی تھکا دیتا ہے۔ انسانی نفسیات ہے کہ ہمیں عام طور پر بہت سامنے کی اور روزانہ کے برتنے کی چیزیں باتیں نہ دِکھائی دے پاتی ہیں نہ محسوس ہوپاتی ہیں۔ تو ہمیں اپنے سر پر رکھی غیرضروری و اضافی و نمائش کاموں کی پوٹلی بھی نہیں دِکھائی دے پاتی۔ ہم دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے ہر طرف اپنی تھکان کا سبب ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ مگر اصل وجہ تک نہیں پہنچ پاتے۔
زندگی کے سفر میں جگہ جگہ Break لے کر، رُک رُک کر اپنے اندر اور باہر جھانکنا چاہئے۔ باریک بینی سے، سب سے پہلے اپنے وجود، اپنی سوچ، اپنے خیالات، اپنے احساسات کو کھنگالنا چاہئے کہ ہم نے اپنے اندر کسی چھپّر کسی کونے، کسی گوشے میں ایسا کیا کچھ چُھپا رکھا ہے جو نہ صِرف ہمارے لئے غیر ضروری اور اضافی ہے بلکہ وزنی اور بے ہنگم بھی ہے۔ اور جِس کے بوجھ تلے ہم چلتے چلتے، اپنے کام کرتے کرتے ذرا جلد تھک جاتے ہیں۔ اور ہمیں سانس لینے کیلئے رُکنا پڑتا ہے۔
اصلی اور دیرپا صفائی، اندر کی صفائی ہوتی ہے۔ یہ ذرا زیادہ دقّت طلب ہوتی ہے اور اِسے کرنے میں ذرا زیادہ مشقّت کرنا پڑتی ہے۔ ذرا زیادہ تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ہم انجانے میں، اپنی معصومیت میں، نادانی میں ایسی بھاری بھر کم سوچیں، خیال، خواہشیں اور جذبے پال لیتے ہیں جو نہ تو ہماری شخصیت اور نفسیات سے Compatable ہوتے ہیں۔ نہ کسی طرح ہماری روح سے Matching میں آتے ہیں۔ نہ ہماری حقیقی اور عملی زندگی سے Synchronize ہوپاتے ہیں۔ اور نہ ہی ہمارے لئے فائدہ مند ہوتے ہیں۔
یہ سب خیال، سوچیں، خواہشیں اور جذبے اور اِن سے منسلک وسوسے، خدشے، مایوسیاں، امیدیں اور اُن کے حصول کی کوششیں اور ناکامیاں، کامیابیاں سب کے سب نہ صرف ہمارے لاشعور کے تہہ خانے میں Dump ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ وہاں پڑے پڑے انڈے بچے بھی دیتے رہتے ہیں اور ہماری شعوری توجہ کی نمو پا کر پھلتے پھولتے بھی رہتے ہیں۔ مناسب وقت اور ہر ایک خاص مدّت پر اگر اِن کی کانٹ چھانٹ نہ کی جائے۔ Ediliting نہ کی جائے اور Anti Virus نہ چلا یا جائے تو ہماری زندگی کا سفر بار بار رُکنے لگتا ہے۔
وقتاً فوقتاً ازخود رُک کر، تھم کر اپنے ذہن کے Android سسٹم کی صفائی نہ کی جائے تو اسمارٹ فون کی طرح ہماری زندگی کا سسٹم بھی Hang ہونے لگتا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے کسی بھی اندرونی یا بیرونی سسٹم کو Hang نہ ہونے دیں۔ Corrup نہ ہونے دیں۔ اپنے موبائل فون کی طرح۔ مہنگے سے مہنگا فون بھی اگر مستقل طور پر Periodically صاف نہیں کیا جائے گا تو چلتے چلتے وہ اچانک بند ہونے لگے گا اور اپنی Functionality کھونے لگے گا۔ اُس کا REM ، اُس کا ROM اُس کے اندر پڑی سب Applications اور Softwares آہستہ آہستہ غیر ضروری فائلز اور Memory سے بھرنے لگیں گے۔
ایک عام کار، ایک عام فون کا جب یہ حال ہوتا ہے تو ذرا سوچئے کائنات کی سب سے اعلیٰ سب سے ارفع مشین یعنی اِنسان کا کیا حال ہوگا۔ اگر وہ اپنے اندر موجود فطری Softwares اور پھر مزید ہزاروں خواہش یا مجبوری کے تحت ڈالی گئی Applications کو وقتاً فوقتاً صاف نہیں کرے گا۔ Anti Malware سروس Activate نہیں کرے گا تو کیسے اور کیونکر اُس کے تمام اندرونی اور بیرونی نظام اور دیگر کام خوش اسلوبی سے چل سکیں گے۔
ہماری المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی چیزوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کا تو انتظام کرتے رہتے ہیں۔ لیکن خود اپنی دیکھ بھال، اپنی نگہداشت، اپنی صفائی ستھرائی، اپنی Tuning, اپنی Over hauling کا نہ کچھ سوچتے ہیں اور نہ اُس کیلئے کوئی کوشش کرتے ہیں۔
کوشش کیجئے کہ اِس سے پہلے ہمارا سفر، ہماری زندگی کا سفر اچانک سے رُک جائے، ہمارا اندورنی اور بیرونی نظام اچانک سے تھم جائے، ہمارے سوفٹ ویئرز، ہماری ایپلی کیشنز اچانک سے کرپٹ ہو جائیں۔ ہم کو ایسا کوئی اختیاری نظام Adopt کرلینا چاہئے، جس کے تحت ہم ڈیش بورڈ پر ریڈ سگنل آنے سے بہت پہلے پہلے اپنے اندر، اپنے ذہن، اپنے قلب، اپنی روح کی صفائی کرتے رہیں۔ ہر طرح کے اضافی اور غیر ضروری بوجھ سے نجات پاتے رہیں۔
تبھی ہم ہلکے پھلکے رہ کر اپنی زندگی کا سفر، آرام و سکون سے طے کرسکتے ہیں کہ بہترین سفر کم سے کم سامان کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More