حضوراکرمؐ نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سے مشورہ لیا (کہ بدر کے قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جائے؟) تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ لوگ (ہمارے چچا کے بیٹے، خاندان کے لوگ اور بھائی ہیں، میری رائے یہ ہے کہ آپؐ ان سے فدیہ لے لیں اور انہیں چھوڑدیں) تو ہم ان سے جو فدیہ لیں گے، وہ کفار سے مقابلہ کے لیے ہماری قوت کا ذریعہ بنے گا اور ہو سکتا ہے کہ رب تعالیٰ ان کو ہدایت دیدے، تو پھر یہ ہمارے دست و بازو بن جائیں گے۔
پھر حضور اکرمؐ نے فرمایا: اے ابن الخطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے عرض کیا: خدا کی قسم! جو حضرت ابو بکرؓ کی رائے ہے وہ میری رائے نہیں ہے، بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ فلاں آدمی جو میرا قریبی رشتہ دار ہے، وہ میرے حوالہ کر دیں، میں اس کی گردن اڑادوں اور عقیل کو حضرت علیؓ کے حوالہ کر دیں، وہ عقیل کی گردن اڑا دیں اور فلاں آدمی جو حضرت حمزہؓ کے بھائی ہیں، یعنی حضرت عباس، وہ حضرت حمزہؓ کے حوالہ کر دیں، حضرت حمزہؓ ان کی گردن اڑا دیں تاکہ حق تعالیٰ کو پتہ چل جائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکوں کے بارے میں کسی قسم کی نرمی نہیں ہے۔ یہ لوگ قریش کے سردار، امام اور قائد ہیں۔
(حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ) حضور اکرمؐ نے حضرت ابوبکرؓ کی رائے کو پسند فرمایا اور میری رائے آپؐ کو پسند نہ آئی اور ان قیدیوں سے فدیہ لے لیا۔ اگلے دن میں حضور اکرمؐ اور حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں گیا تو وہ دونوں رو رہے تھے، میں نے عرض کیا: حضور! آپ مجھے بتائیں کہ آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر (رونے کی وجہ معلوم ہونے پر) مجھے بھی رونا آ گیا تو میں بھی رونے لگ جائوں گا اور اگر رونا نہ آیا تو آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے میں بھی بہ تکلف رونے کی صورت بنا لوں گا۔
حضور اکرمؐ نے فرمایا: میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ تمہارے ساتھیوں نے ان قیدیوں سے جو فدیہ لیا ہے، اس کی وجہ سے خدا کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب آ گیا تھا اور حق تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ہے:
ترجمہ ’’نبی کی شان کے لائق نہیں ان کے قیدی باقی رہیں (بلکہ قتل کر دئیے جائیں) جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خون ریزی نہ کر لیں۔ تم تو دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہو اور خدا تعالیٰ آخرت (کی مصلحت) کو چاہتے ہیں اور خدا تعالیٰ بڑے زبردست بڑی حکمت والے ہیں۔‘‘
گویا اس آیت قرآنی نے حضرت عمرؓ کی رائے کی تائید کردی۔ اس کے علاوہ بھی کئی مواقع پر ایسا ہوا کہ حضرت عمرؓ کی رائے کے موافق وحی الٰہی کا نزول ہوا۔ ایسی آیات کو موافقات عمر کہا جاتا ہے۔ (صور من حیات الصحابہ)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post