چوتھی قسط
ایک بار ابوحسین نے مجھے چند دوستوں کے ہمراہ کھانے کی دعوت دی۔ یہ نماز کا وقت تھا، ہم سب مل کر مسجد چل دیئے، مجھے یہ ہدایت کی گئی کہ تم ہماری طرح وضو کرو اور پھر ہماری ہی طرح نماز ادا کر سکتے ہو۔ میں نماز کے دوران ان کو آنکھ کے ایک کونے سے دیکھتا رہا اور ان کی اتباع کرتا رہا۔ نماز کے بعد میں اپنی جگہ منجمد ہو کر بیٹھ گیا اور انتظار میں تھا کہ اب کیا کرنا ہے؟ میرے دوستوں نے مجھے کہا کہ با جماعت نماز کے بعد میں مسجد کے باہر ان کا انتظار کرسکتا ہوں تاکہ مجھے پہلی بار زیادہ مشکل سے دوچار نہ ہونا پڑے، اس روز مجھے یہ احساس ہوا کہ ایک غیر مسلم بھی مسجد میں داخل ہو سکتا ہے۔
اسی طرح ایک بار پھر ایسا ہی معاملہ ہوا، میں ابوحسین کے گھر تھا، سب دوست مل کر گھر میں ہی نماز ادا کرنے والے تھے۔ انہوں نے مجھے رائے دی کہ میں بھی ان کے ساتھ نماز ادا کروں، نماز کے دوران خدا سے استغفار کروں، اور پھر ہدایت کی دعا مانگوں اور رب تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کروں۔ اس نماز کے بعد مجھے بے حد ذہنی سکون ملا۔ مجھے ایسا سکون زندگی بھر نصیب نہ ہوا تھا، اس لیے میں ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا کہ بحیثیت غیر مسلم ان مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز ادا کرسکوں اور بار بار ویسی کیفیت پیدا کرسکوں۔
مجھے اسلام کی مٹھاس تو مل چکی تھی، لیکن میں ابھی دائرئہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے تیار نہ تھا، اس کی کئی وجوہات تھیں۔ مجھے یہ فکر لاحق تھی کہ میں پرانے دوستوں اور اپنے کنبہ سے کٹ جاؤں گا۔ اس کے علاوہ شراب نوشی، منشیات، جوا بازی اور لڑکیوں سے دوستی کو یک دم خیرباد کہنا ناممکن سا لگ رہا تھا۔ دائرئہ اسلام میں داخل ہونے پر مجھے پورا طرزِ معاشرت بدلنا پڑنا تھا، میں ذہنی طور پر اس کے لیے ابھی تیار نہ تھا۔
اسی شہر میں میرا ایک امریکی مسلم دوست بطور انجینئر کام کر رہا تھا۔ اس کا نام علی بشیر تھا۔ ایک دن میں ابو حسین کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کرنے کی غرض سے مسجد گیا، وہاں علی بشیر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے علی بشیر سے کہا کہ میں دائرئہ اسلام میں داخل ہونے کے بالکل قریب ہوں، یوں سمجھ لیں کہ میں ایک کنارے پر بیٹھا ہوں، اگر کوئی مجھے معمولی سا دھکا دے تو میں اسلام میں داخل ہو جاؤں گا۔ علی بشیر نے اس مقصد کے لیے مجھے ایک ویڈیو دی، تاکہ میں اس سے مستفید ہو سکوں۔
جبیل کے مسلمان شہریوں نے ایک پکنک کا انتظام کیا، اس میں ہم چھ غیر مسلم بھی مدعو تھے۔ ہم نے دن بھر مختلف کھیلوں میں حصہ لیا، پھر مل جل کر کھانا کھایا، آخر میں ایک مختصر تقریر سنی۔ میں یہ سن کر دنگ رہ گیا کہ مسلمان سب پیغمبروں اور سب الہامی کتابوں کو مانتے ہیں اور یہ ان کے ایمان کا اہم جزو ہے، مجھے کچھ لٹریچر بھی دیا گیا، جس میں مختلف مذاہب کا موازنہ درج تھا۔ ان میں سے ایک کتابچہ بہت ہی دلچسپ تھا۔ اس میں ایک مسلمان اور عیسائی کے درمیان بحث و مباحثہ درج تھا۔ اس لٹریچر کے پڑھنے کے بعد میرا ایک خدا پر یقین اور بڑھ گیا، لیکن میری سمجھ سے بالا تھا کہ اس کی عبادت کیسے کروں اور یہ کہ خدا مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ علاوہ ازیں مجھے یہ بھی واضح نہیں تھا کہ مجھے کس رنگ ڈھنگ سے زندگی گزارنی چاہئے۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post