آخری حصہ
وثائق کی رہنمائی سے انہوں نے اس درخت کی تلاش شروع کی تو پتہ لگا کچھ عرصہ پہلے تیل کی ایک پائپ لائن کا سروے کرتے ہوئے وہ شاہراہ دریافت ہوئی، جو کسی بازنظینی بادشاہ نے اس غرض سے بنائی تھی کہ حجاز کے تاجر اس کے ذریعے اطمینان سے شام کا سفر کر سکیں۔ اس دریافت سے انہیں مزید مدد ملی اور انہوں نے اسی شاہراہ کو بنیاد بنا کر علاقے کا سروے کیا تو یہ عجیب و غریب درخت دریافت ہوا، جو سیکڑوں مربع کلو میٹر میں پھیلے ہوئے صحرا کے درمیان تنہا درخت تھا۔ جو زندہ اور توانا کھڑا ہوا تھا۔ اسی درخت سے کچھ فاصلے پر انہیں ایک عمارت کے کھنڈر بھی نظر آئے، جس کے بارے میں یہ امکان تھا، یہ شاید بحیرا راہب کی خانقاہ ہوگی۔ انہوں نے آس پاس رہنے والوں بدوؤں سے تحقیق کی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے خاندانوں میں یہ بات تواتر کی حد تک مشہور ہے کہ اس درخت کے نیچے حضور اکرمؐ نے قیام فرمایا تھا۔
ان تمام شواہد کی روشنی میں حکومت اردن نے اس جگہ کی حفاظت کے لئے اس کے گرد احاطہ بنا دیا ہے۔ جب یہ درخت پہلی بار شہزادہ غازی کو دریافت ہوا، اس وقت وہ زندہ ضرور تھا اور اس کی ایک زندہ درخت کی طرح پوری ہیئت بھی برقرار تھی، لیکن شاخیں کچھ سوکھی ہوئی تھیں۔ اس کے بعد اسے پانی دینے کا اہتمام کیا گیا، جس کے بعد وہ بالکل ترو تازہ اور سر سبز ہوگیا۔
یہ بات وہاں جا کر بالکل واضح طور پر نظر آتی ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی درخت ہے۔ اس لئے کہ سیکڑوں مربع کلو میٹر دور تک نہ کسی درخت کا نام و نشان ہے اور نہ وہاں تک پانی پہنچنے کا کوئی راستہ نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بات کوئی بعید یا تعجب خیز نہیں ہے کہ اس درخت سے چونکہ حضور نبی کریمؐ کا ایک معجزہ ظاہر ہوا تھا اور اس کی بنا پر بحیرا راہب کو آپؐ میں خاتم الانبیاء کی علامتیں نظر آئی تھیں، اس لئے حق تعالیٰ نے اسے معجزاتی طور پر باقی رکھا ہوا ہو۔ بالخصوص جبکہ اس درخت سے تقریباً سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک عمارت کے کھنڈر بھی موجود ہیں، جن کا رخ اسی درخت کی طرف ہے۔
جہاں تک اس کے محل وقوع کا تعلق ہے، سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ بحیرا سے ملاقات کا واقعہ شام کے شہر بصریٰ میں پیش آیا تھا اور حافظ ابن کثیرؒ نے ابن عساکر سے نقل کیا ہے کہ بحیرا راہب ایک بستی میں رہتا تھا، جس کا نام ’’کفر‘‘ تھا اور وہ بستی بصریٰ شہر سے چھ میل دور تھی۔
اگر یہ بات درست مانی جائے کہ بحیرا کی بستی بصریٰ سے چھ میل دور تھی تو بظاہر اس کا محل وقوع وہ نہیں ہونا چاہئے، جو اس درخت کا ہے۔ کیونکہ بصریٰ شہر یہاں سے کافی فاصلے پر شام کی سرحد کے اندر واقع ہے۔ علاقے کے نقشے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ سے قریب ترین بستی ’’ارزق‘‘ ہے اور اس کے بعد شام (سوریا) کی سرحد آتی ہے، جس کے بعد پہلا شہر بصریٰ ہے۔ بصریٰ یہاں سے کتنا دور ہے؟ اس کی مجھے تحقیق نہیں ہو سکی، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ یہ فاصلہ چھ میل سے زیادہ ہے۔ البتہ بصریٰ چونکہ اس وقت بہت بڑا شہر تھا، اس لئے یہ امکان موجود ہے کہ ’’بصریٰ‘‘ کا لفظ صرف اس شہر کے لئے نہیں، بلکہ اس کے مضافات میں ایک بڑے علاقے کے لئے بولا جاتا تھا، جس میں ارزق اور یہ جگہ بھی شامل ہو۔ ان وجوہ سے مکمل یقین تو نہیں ہوسکتا، لیکن یہ قوی احتمال ضرور قائم ہوتا ہے کہ یہ وہی درخت ہوگا۔
یہ پستہ کا درخت ہے، اب بھی اس پر پستہ آتا ہے اور میں نے کھایا بھی ہے۔ درخت کی چھاؤں بھی بڑی خوشگوار ہے۔ چشم تصور نے یہاں جس محبوب دل نوازؐ کو جلوہ افروز دیکھا، اس چھاؤں میں وہ مٹھاس پیدا کر دی تھی، جو کسی اور سائے میں حاصل نہیں ہو سکتی۔ (سفرنامہ مفتی محمد تقی عثمانی)
Prev Post
Next Post