قسط نمبر: 42
کچھ دور چل کر فٹ پاتھ کی ریلنگ کے ساتھ کھڑے ایک شخص کو دیکھ کر میرے قدم خود بخود رک گئے۔ وہ شخص ایک جانب کھڑا عقابی نظروں سے اپنے سامنے گزرنے والے تمام لوگوں کو گویا اسکین کر رہا تھا۔ دوسری بات میرے رک جانے کی یہ تھی کہ وہ شخص مجھے پاکستانی لگا۔ یکایک اس نے بھی مجھے دیکھا اور بڑی اپنائیت سے ہاتھ کے اشارے سے مجھے توقف کرنے کے لیے کہا اور پھر فوراً ہی میرے پاس چلا آیا اور فارسی میں بولا کہ پاکستانی ہو؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر اس سے دریافت کیا کہ خود اس کا کہاں سے تعلق ہے تو اس نے بتایا کہ وہ ایک افغانی ہے، مگر ایران ہی میں سکونت اختیار کر لی ہے اور شادی بھی ایک ایرانی خاتون سے کر لی ہے اور اس طرح اب میں ایک پکا ایرانی ہوگیا ہوں۔ پھر اس نے پاکستان میں میرے شہر اور ایران آنے کے مقصد کے بارے میں سوال کئے۔ میں نے مختصراً اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ چند سال پیشتر میں افغانستان کا خاصا تفصیلی ارضیاتی دورہ کر چکا ہوں اور اس کے ملک کو اتنا دیکھا ہے کہ خود اس نے بلکہ اکثر افغانیوں نے بھی نہیں دیکھا ہوگا۔ اس پر میرے افغانی بھائی نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور پھر مجھے ایک عجیب و غریب پیشکش کی اور وہ یہ تھی کہ اب میں ایران ہی کو اپنا وطن بنالوں اور یہیں آباد ہو جاؤں۔ پھر بولا کہ ایران کی لڑکیاں بڑی اچھی اور وفادار ہوتی ہیں، جس کا اسے ذاتی تجربہ ہے۔ اس لیے میں شادی بھی یہیں کرلوں اور میرے لیے ایک اچھی لڑکی تلاش کرنا اس کا ذمہ ہے۔ میں نے اس پیشکش کے لیے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور اسے بتایا کہ اسلام آباد میں بفضل تعالی میرا ذاتی گھر ہے۔ ایک عدد ٹھیک ٹھاک بیوی بھی ہے، بچے ہیں اور اب تو بچوں کے بھی بچے ہیں۔ اس لیے مجھے ایران میں آباد ہونے اور یہاں شادی کے بارے میں سوچنا بھی بڑی عجیب بات ہوگی۔ میرا خاصا تفصیلی جواب سن کر وہ مطمئن ہوگیا اور اپنی پیشکش کے قبول کیے جانے پر مزید زور نہ دیا۔ مگر بولا کہ اچھا دوست اپنے کیمرے سے (جو میرے کاندھے پر لٹکا ہوا تھا) میری ایک یادگار تصویر اس شرط پر بناؤ کہ تم اس تصویر کا ایک پرنٹ مجھے ضرور بھیجو گے۔ میں نے کہا مجھے تمہاری درخواست اور شرط دونوں منظور ہیں، مگر میری بھی ایک شرط ہے۔ وہ بولا کہ وہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ تم تصویر بنوانے کے لیے اسی انداز میں اور اسی جگہ کھڑے ہوگے، جہاں کہ میرے یہاں آنے سے پہلے کھڑے تھے۔ اس نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس طرح میں نے اپنے اس افغانی دوست کی تصویر بنائی۔ میں نے اپنے افغانی دوست کو بتایا کہ اس کی تصویر میں انشاء اللہ تعالی اسے پاکستان سے روانہ کروں گا اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنا ڈاک کا پتہ مجھے دیدے۔ اس نے کاغذ کی ایک چٹ پر اپنا پتہ لکھ دیا جو یہ تھا: ’’تہران، ایران، سہ رہ آذری، خیابان قدرت پاکی کوچہ شہید بقیری پلاک25۔ کریم حیدری‘‘۔
میں نے پاکستان واپسی پر ان حضرت کو ان کی تصویر اور تہران کے ہی ایک صاحب کو ان کی تصویر روانہ کر دی۔ مگر کہیں سے بھی رسید موصول نہ ہوئی۔ خدا جانے یہ تصاویر ان صاحبان کو ملیں بھی یا نہیں۔ اوپر میں نے کریم حیدری صاحب کا پتہ اسی ترتیب سے نقل کیا ہے کہ جس ترتیب سے آنجناب نے مجھے لکھ کر دیا۔
مندرجہ بالا مصروفیات کے بعد میں مارچ کرتا ہوا اپنے مہمان پذیر واپس پہنچ گیا۔ راستے میں کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہ آیا۔ دوسرے دن یعنی پانچ مارچ 2002ء کے لیے میرا پروگرام تھا کہ اپنے فیلڈ یعنی ارضیات سے تعلق رکھنے والے تہران میں قائم دو اہم اداروں کو وزٹ کروں۔ ایک تہران یونیورسٹی کا شعبہ ارضیات اور دوسرا ’’سازمان شناسی واکتشافات معدنی کشور‘‘۔ پہلے ادارے کو تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ دوسرے قدرے طویل نام سے مراد ہے ’’محکمہ ارضیاتی سروے ایران‘‘ یا جیولوجیکل سروے آف ایران۔
پانچ مارچ 2002ء بروز منگل میں اپنے مہمان پذیر سے آذربائیجانی ناشتہ کرنے کے بعد تہران یونیورسٹی نزد میدان انقلاب پہنچ گیا۔ یہ یونیورسٹی میرے مہمان پذیر سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہ تھی ۔ اس روز میں خوش تھا کہ آج اپنے ہم مشرب لوگوں کے ساتھ بڑا اچھا وقت گزرے گا۔ میں ان لوگوں کو پاکستان کی جیولوجی بالخصوص کوہستان نمک (سالٹ ریجن) کی جیولوجی اور اس پر اپنے کام سے و نیز ایران کے کوہ نمک کی جیولوجی پر اپنے خیالات سے آگاہ کروں گا اور اپنے تصورات اور اخذ کئے ہوئے نتائج پر ان صاحبان سے ان کی رائے طلب کروں گا۔ انہی خوش کن تصورات میں گم اور اس امر سے بے خبر کہ کہ یہاں آج میرے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے، میں نے تہران یونیورسٹی کے گیٹ میں قدم رکھا۔ اب مرحلہ تھا جیولوجی ڈپارٹمنٹ کو ڈھونڈنے کا۔ کچھ طالب علم کھڑے نظر آئے۔ میں نے ان سے ڈپارٹمنٹ کی بابت پوچھا تو انہوں نے لاپرواہی سے ایک جانب اشارہ کر دیا۔ اس طرف گیا اور وہاں لوگوں سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ غلط آگئے ہیں۔ شعبہ زمین شناسی تو ادھر ہے۔ غرض ان شریف لوگوں نے مجھ بوڑھے کو پنگ پانگ کی بال بنا لیا۔ کوئی ادھر بھیجتا اور کوئی ادھر۔ اس دن تہران میں چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی اور میرا پیاس اور پسینے سے برا حال ہو گیا۔ بالآخر ایک شریف آدمی کو مجھ پر رحم آیا اور وہ مجھے خود شعبہ زمین شناسی کے سربراہ کے دفتر میں چھوڑ آیا۔ وہاں موجود سربراہ کے پرسنل سیکریٹری، آفس اسسٹنٹ اور ایک کلرک صاحب نے مجھ خستہ حال کی جانب کچھ اس انداز سے دیکھا جیسے کسی اہل ثروت کے ملازمین اپنی کوٹھی میں داخل ہو جانے والے کسی فقیر کو دیکھتے ہی اسے باہر نکالنے کے لیے پر تولنے لگتے ہیں۔ میں نے ان لوگوں کی نفرت آمیز نگاہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے بطور سابق چیف جیولوجسٹ پاکستانی معدنی ترقیاتی کارپوریشن اور حالیہ چیئرمین تکنیک مشرق پاکستان اپنا تعارف کرایا۔ اپنا وزیٹنگ کارڈ پیش کیا اور عرض کی کہ میں آپ کے محکمے کے سربراہ صاحب سے تھوڑی دیر کے لیے ملنا چاہتا ہوں۔ سربراہ کے بظاہر پرسنل سیکریٹری صاحب بولے کہ صاحب بڑے مصروف آدمی ہیں، ان سے ملاقات تو مشکل ہے مگر یہ بتایئے کہ آپ ان سے کس سلسلے میں ملنا چاہتے ہیں؟ عرض کیا گیا کہ ایک تو ملاقات بحر ملاقات۔ دوسرے ایران کے کوئلے کے ذخائر پر مجھے کچھ ارضیاتی لٹریچر چاہئے تھا۔ اور تیسرے میں شعبہ ارضیات کے طالب علموں اور اساتذہ کو پاکستان کے نمک کے ذخائر اور ایران کے نمک کے ذخائر بالخصوص ایران کے مشہور زمانہ کوہ نمک کے ذخائر پر ایک لیکچر دینا چاہتا ہوں۔ میری پہلی دو خواہشات تو اس شخص نے قدرے تحمل سے سنیں۔ مگر میری لیکچر دینے والی بات سن کر تو غصہ اور نفرت سے اس کا رنگ بدل گیا اور اس نے مجھے ایسی تحقیر آمیز نظروں سے دیکھا کہ مجھے اس سے پہلے کبھی کسی نے ایسی نفرت آمیز اور حقارت بھری نظروں سے نہ دیکھا تھا۔ ابھی اس شخص نے اپنی نفرت اور حقارت کو الفاظ میں نہ ڈھالا تھا کہ باقی ماندہ دو اشخاص میں سے ایک سخص، شاید مجھے مزید ذلت سے بچانے کے لیے فوراً بول اٹھا کہ ایرانی کوئلے کے ذخائر پر یہاں سے آپ کو کوئی لٹریچر نہ مل سکے گا، اس کے لیے آپ کو نسکو (NISCO) کے شعبہ خام مال میں ڈاکٹر مہوی کے پاس جانا چاہیے، جن کا دفتر دانش کیا اسٹریٹ پر واقع ہے۔ یہ سن کر وہ شخص جو میرا وزیٹنگ کارڈ لے کر شعبے کے سربراہ کے کمرے کی طرف چلا تھا، رک کر میری طرف دیکھنے لگا۔ اس پر میں نے مزید کوئی بات کرنا یا اس جگہ رکنا مناسب نہ سمجھا اور میں ڈاکٹر مہوی کے پاس جانے کا مشورہ دینے والے شخص کا شکریہ ادا کر کے اس دفتر سے باہر نکل آیا۔ یوں ان لوگوں نے مجھے کھڑے کھڑے ہی بس دو یا تین منٹ میں فارغ کر دیا اور ساتھ ہی مرزا غالب کے اس شعر کا ازسر تاپا مصداق بنادیا۔
نکلنا خلد سے آدم سنتے آئے تھے
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
(جاری ہے)
Prev Post
Next Post