دور نبوی کا ایک عجیب واقعہ

0

ایک عجیب واقعہ جو آنحضرتؐ کے مبارک زمانے میں پیش آیا کہ تمیم بن اوس داری اور عدی بن بداء جو اس وقت دونوں نصرانی تھے، بغرض تجارت مدینہ سے شام گئے اور ان کے ساتھ بدیلؓ مولی عمرو بن العاص بھی تھے، جو مسلمان تھے۔ بدیلؓ وہاں جا کر بیمار ہو گئے، اس لیے انہوں نے اسی بیماری کی حالت میں اپنے کل مال کی جو اُن کے پاس تھا، ایک فہرست لکھی اور اس کو اپنے مال و اسباب میں رکھ دیا اور اپنے دونوں نصرانی ساتھیوں سے اس کا ذکر نہ کیا۔ جب ان کا مرض سخت ہو گیا اور مرنے لگے تو انہوں نے اپنا مال تمیم اور عدی کے سپرد کیا اور یہ وصیت کی کہ جب تم مدینہ واپس جاؤ تو میرا یہ سامان میرے وارثوں کو پہنچا دینا، پھر بدیلؓ کا انتقال ہوگیا اور وہیں دفن ہو گئے۔
بعد ازاں وہ دونوں نصرانی اپنے کام سے فارغ ہو کر مدینہ واپس آگئے۔ اس مال میں ایک چاندی کا پیالہ بھی تھا، جس پر سونے کا خول چڑھا ہوا تھا اور اس میں تین سو مثقال چاندی تھی۔ ان نصرانیوں نے وہ پیالہ تو مال سے غائب کر لیا اور باقی سب مال بدیلؓ کے وارثوں کو لا کر دے دیا۔ وارثوں نے جب اس مال کی دیکھ بھال کی تو اس میں سے ایک فہرست برآمد ہوئی، جس میں ہر چیز کی تفصیل تھی، جب اس فہرست کے مطابق انہوں نے مال کی جانچ پڑتال کی تو اس میں سے ان کو وہ چاندی کا پیالہ نہ ملا۔ وہ لوگ تمیم اور عدی کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا بدیل نے بیماری کی حالت میں اپنا کچھ مال فروخت کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا نہیں۔ وارثوں نے کہا کہ ہم کو اس سامان میں ایک فہرست ملی ہے، جس میں اس کے سب مال و اسباب تفصیل ہے۔ اس فہرست کے مطابق ہم کو ایک چاندی کا پیالہ نہیں ملتا، جس پر سونے کا خول چڑھا ہوا تھا اور اس میں تین سو مثقال چاندی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کو کچھ معلوم نہیں۔ جو چیز اس نے ہمارے سپرد کی تھی وہ ہم نے تمہارے سپرد کر دی۔
وارثوں نے یہ معاملہ آنحضرتؐ کے سامنے پیش کیا، مگر وہ دونوں اپنے انکار پر قائم رہے۔ چونکہ مدعی فریق یعنی ورثاء میت کے پاس خیانت کے کوئی گواہ نہ تھے، اس لیے طے یہ پایا کہ تمیم اور عدی قسم اٹھائیں کہ ہم نے اس مال میں کوئی خیانت نہیں کی، کیونکہ وہ دونوں نصرانی اس مقدمے میں مدعی علیہ تھے، اس لیے ان سے قسمیں لی گئیں۔ انہوں نے جھوٹی قسمیں کھالیں اور قصہ ختم ہوگیا۔
کچھ دنوں بعد کہیں سے وہ پیالہ پکڑا گیا، جس کے پاس پیالہ ملا، اس سے دریافت کیا گیا کہ تیرے پاس یہ پیالہ کہاں سے آیا۔ اس نے کہا کہ یہ پیالہ میں نے تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔ اب دوبارہ یہ مقدمہ آنحضرتؐ کی بارگاہ میں پیش ہوا۔ اس وقت یہ دونوں نصرانی خریداری کے مدعی بن گئے اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے یہ پیالہ اس کے مالک سے یعنی اس میت سے خرید لیا تھا، لیکن چونکہ اس کے پاس خریداری کے گواہ نہ تھے اور ورثاء خریداری کے منکر تھے، اس لیے اب آپؐ نے ان کے بجائے وارثوں سے قسمیں لیں۔ اس پر بدیلؓ کے دو قریبی وارث کھڑے ہوئے اور عصر کے بعد انہوںنے یہ قسم کھائی کہ وہ دونوں شخص جھوٹے اور خائن ہیں اور ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ معتبر ہے۔ تب اس پیالہ کی وہ قیمت جس پر انہوں نے وہ فروخت کیا تھا (یعنی ایک ہزار درہم) لے کر وارثوں کو دلائی گئی اور قصہ ختم ہو گیا۔
اس واقعہ کے بعد جب سیدنا تمیم داریؓ اسلام لے آئے تو کہا کرتے تھے کہ بے شک خدا اور اس کے رسولؐ سچے ہیں۔ میں نے پیالہ لیا تھا، اب میں اپنے اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں اور خدا سے معافی مانگتا ہوں۔
اس بارے میں حق تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
ترجمہ: ’’اے مسلمانو! تمہارے درمیان اس وقت کی گواہی جب کہ تم میں سے کسی کو موت آپہنچے یعنی وصیت کا وقت آپہنچے اور مال ورثاء کے سپرد کرنے کی ضرورت ہو تو گواہی کا نصاب ایسے دو شخص ہیں جو ثقہ اور معتبر ہوں اور تم میں سے ہوں یعنی مسلمان ہیں۔‘‘(بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More