اب وہ کبھی بھی کھلونوں سے نہیں کھیل پائے گا۔ اب وہ ہاتھ میں قلم پکڑ کر اپنا نام بھی نہیں لکھ پائے گا۔ اب وہ نہ زمین پر پڑی ہوئی گیند اٹھا سکتا ہے اور نہ کتابوں کا بیگ! اب وہ اپنے ہاتھوں سے ٹافی کا ریپر بھی نہیں کھول سکے گا۔ اس کو جب بہت بھوک لگے گی، تب اس کو انتظار کرنا پڑے گا کہ اس کی امی آئے اور اس کو اپنے ہاتھ سے کچھ کھلائے۔ وہ بچہ جو آٹھ برس کا تھا۔ وہ ہاتھوں سے محروم کر دیا گیا۔ یہ معاشرہ ایک شرمسار مجرم کی طرح خاموش ہے۔ اس خاموشی میں ایک بچے کے رونے کی آواز گونج رہی ہے اور ایک ماں کی دبی دبی سسکیاں زلزلے کے بعد آنے والے آفٹر شاکس کی طرح اس نظام کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جہاں ایک بچہ ایک بہت بڑے سرمایہ دار ادارے کی لاپروائی کے باعث ہمیشہ کے لیے ان دونوں ہاتھوں سے محروم ہو جاتا ہے، جن ہاتھوں کے بغیر انسان کی زندگی بہت بڑا بوجھ بن جاتی ہے۔ جس طرح ایک پرندہ پروں کے بغیر آسمان میں نہیں اڑ سکتا، اسی طرح ایک انسان ہاتھوں کے بغیر معاشرے میں وہ کردار ادا نہیں کر سکتا جو جینے کے لیے ضروری ہے۔
وہ بچہ ایک معذور پرندہ ہے۔ ایک ایسا پرندہ جو شاخ حیات پر بیٹھ کر اداس آنکھوں سے آسمان کو دیکھتا رہے گا۔ جب گرمیوں کی شاموں میں بچے شور کرتے ہوئے کرکٹ کھلیں گے، تب وہ بچہ ان کو اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھ کر دیکھتا رہے گا۔ جس طرح کشمیر کے خوبصورت شاعر احمد شمیم نے لکھا تھا کہ:
’’کبھی ہم بھی خوبصورت تھے‘‘
اسی طرح وہ بچہ مشکل سے بننے والے اپنے ہر نئے دوست کو بتائے گا کہ وہ پیدائشی معذور نہیں ہے۔ جب اس نے جنم لیا تھا، تب اس کے بازوؤں سے جڑے ہوئے دو خوبصورت ہاتھ تھے۔ ان ہاتھوں میں قسمت کی لکیریں بھی تھیں۔ ان ہاتھوں سے اس نے اپنے والد کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا۔ ان ہاتھوں سے اس نے اپنی آنکھیں مسلیں۔ ان ہاتھوں سے اس نے اپنی ننھی منی سی ناک کو پونچھا۔ ان ہاتھوں سے اس نے اپنی امی کو اشارہ کرکے اپنے پاس بلایا۔ ان ہاتھوں سے اس نے بلی کے بچے کو اٹھایا۔ ان ہاتھوں سے اس نے زندگی کے پہلی چابی والے کھلونے میں چابی بھر کر اسے گھر کے فرش پر چلایا۔ ان ہاتھوں سے اس نے خوشی میں تالیاں بجائیں۔ ان ہاتھوں سے اس نے پہلی بار کتاب کا صفحہ الٹا۔ ان ہاتھوں سے اس نے قلم پکڑا۔ ان ہاتھوں سے اس نے اپنا خوبصورت نام لکھا۔ اب وہ ہاتھ کہاں ہیں؟ وہ ہاتھ جنہیں رات کو پکڑ کر اس کی ماں سو جاتی تھی تو ان دونوں کو ناقابل بیان سکون حاصل ہوتا تھا۔ وہ ہاتھ جو ٹافیوں کی وجہ سے چپچپے ہو جاتے تھے۔ وہ ہاتھ جو گلابی رنگ کے چھوٹے پھولوں جیسے تھے۔ وہ ہاتھ جو شبنم کے قطروں جیسے تھے۔ وہ ہاتھ اب کہاں ہیں؟ وہ ہاتھ اب اسپتال کے کچرے کے ڈبے میں پڑے ہیں۔ وہ ہاتھ جو محبت کی مقدس کہانی لکھنے کے لیے عطا ہوئے تھے۔ وہ ہاتھ اب اس بچے کے پاس نہیں ہیں، جن ہاتھوں کے بغیر حرمت جیسی زندگی زحمت بن جاتی ہے۔
وہ ہاتھ جو اسپتال میں کاٹے گئے اور ان کو آپریشبن تھیٹر کے ڈسٹ بن میں ضائع کرنے کے لیے پھینک دیا گیا، ان ہاتھوں نے تھوڑے سے وقت میں بہت بڑے کام کیے تھے، مگر یہ تو ان ہاتھوں کی محض ابتدا تھی۔ اگر ان ہاتھوں نے خالی جیب ہونے کے باوجود کہیں سے ایک سکہ اٹھا کر کسی فقیر کی ہتھیلی پر رکھا تھا، اگر ان ہاتھوں نے کبھی اپنی غمگین ماں کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو اپنی ننھی انگلیوں سے خشک کیا تھا، اگر ان ہاتھوں نے کبھی اپنے تھکے ہوئے والد کے پیر دبائے تھے اور ان ہاتھوں نے گھر کے اندھیرے کمرے میں روشنی جلائی تھی، تو یہ محض ان ہاتھوں کی مشق تھی۔ وہ ہاتھ جو حسین اور مکمل تھے۔ وہ ہاتھ ابھی زندگی کی شاہراہ پر اپنا اصل کام کرنے سے کچھ دور تھے تو کٹ گئے۔ ان ہاتھوں کو ابھی بہت کام کرنا تھا۔ ان ہاتھوں کو زندگی کا بوجھ اٹھانا تھا۔ ان ہاتھوں کو علم سے بھری ہوئی کتابوں کو اپنی درست جگہ پر رکھنا تھا۔ ان ہاتھوں کو صرف لکڑی کے بھالو گھوڑے کو ہی نہیں بھگانا تھا اور لٹو ہی نہیں پھرانا تھا، وہ ہاتھ پتنگ اڑانے سے پہلے ہی کٹ گئے۔ وہ ہاتھ جنہیں نہ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی مدد کرنا تھی، بلکہ ان ہاتھوں کو معاشرے اور ملک کا تحفظ کرنا تھا۔ ان ہاتھوں کو صرف اپنے جیون ساتھی کے ہاتھوں کو پکڑ کر محبت کے راستے پر ہی نہیں چلنا تھا، بلکہ وقت آنے پر ان ہاتھوں کو ہتھیار بن کر وطن کے لیے لڑنا تھا۔ وہ ہاتھ جن پر تاریخ کو ناز کرنا تھا۔ وہ ہاتھ جن کو عظمت کے کارنامے سرانجام دینے تھے۔ وہ ہاتھ جن کو بغاوت کے لیے بلند ہونا تھا۔ وہ ہاتھ جن کو ظلم سے پنجہ لڑانا تھا۔ وہ ہاتھ جنہیں حوصلہ دینا تھا۔ وہ ہاتھ جن کو کمزوروں کا مددگار بننا تھا۔ وہ ہاتھ جن کو خدا کی بارگاہ میں دعا کے لیے اٹھنا تھا۔ وہ ہاتھ ہر حق سے محروم ہو گئے۔
ان ہاتھوں کو ابھی بہت کام کرنا تھا۔ ان ہاتھوں کو تخریب سے لڑنا تھا۔ ان ہاتھوں کو تعمیر میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ ان ہاتھوں کو معاشرے میں مثالی عمل کی علامت بننا تھا۔ ان ہاتھوں کو صرف روزی روٹی ہی نہیں کمانا تھی، بلکہ ان ہاتھوں کو مجبوروں اور مظلوموں کی مدد بھی کرنا تھی۔ بات صرف ان ہاتھوں کے حقوق کی نہیں ہے۔ ان ہاتھوں کے بہت زیادہ فرائض بھی تھے۔ ان ہاتھوں کو اس وقت اپنے والدین کو سہارا دینا تھا، جب وہ معمر ہو جائیں۔ ان ہاتھوں کو بیماروں کی خدمت کرنا تھی۔ ان ہاتھوں کو رات کو دیر سے اور صبح کو سب سے اول سورج ابھرنے سے بھی پہلے وضو کرنا تھا اور خدا کی عبادت کرنا تھی۔ کسی بھوکے پرندے کو دانہ دینا تھا اور کسی یتیم کے سر پر شفقت سے پھرنا تھا۔ ان ہاتھوں کو ان سارے فرائض سے محروم کرکے کاٹ دیا گیا ان کلایوں سے جن کلائیوں میں اب کوئی گھڑی نہیں بندھ پائے گی۔
وقت کے کانٹے کبھی نہیں رکتے۔ وقت جو چلتا رہتا ہے۔ کبھی رک رک کر اور کبھی تیز رفتاری کے ساتھ۔ وقت تو ایک روپوش مجرم ہے۔ یہ تو بھاگتا رہتا ہے۔ یہ تو بھاگتا رہے گا۔ مگر ان دو آنکھوں میں دو آنسو ہمیشہ کے لیے رکے رہیں گے، جن آنکھوں کو اپنی کلائیوں کے ساتھ دو ہاتھ جڑے نظر نہیں آتے۔ وہ دو ہاتھ کاٹ دیئے گئے۔
ان دونوں ہاتھوں کا آخر کیا قصور تھا؟ کیا ان دونوں ہاتھوں نے کوئی چوری کی تھی؟ کیا ان دونوں ہاتھوں نے کوئی ڈاکہ ڈالا تھا؟ کیا ان دونوں ہاتھوں نے چائنا کٹنگ کی تھی؟ کیا ان دونوں ہاتھوں نے ٹی ٹی پستول دکھا کر کسی کو گلی میں لوٹا تھا؟ کیا ان دو ہاتھوں نے کلاشنکوف اٹھا کر دہشت گردی کی تھی؟ کیا ان دو ہاتھوں نے ملک کی دولت لوٹی تھی؟ کیا یہ دو کرپٹ ہاتھ تھے؟ کیا ان ہاتھوں نے ملک کی تباہی میں کوئی مجرمانہ کردار ادا کیا تھا؟ کیا ان ہاتھوں نے حقداروں کا حق چھینا تھا؟ کیا ان ہاتھوں نے کسی کمزور پر تشدد کیا تھا؟ کیا ان ہاتھوں نے کوئی برائی کی تھی؟ یہ ہاتھ فرشتوں جیسے معصوم اور دور گھنے جنگلوں میں بارش کے بعد کھلنے والے گمنام پھولوں کی مانند مقدس تھے۔
یہ ہاتھ پہاڑی چشمے میں چمکتے ہوئے چاند کی کرنوں جیسے تھے۔ یہ ہاتھ تو موسم سرما کی صبح کو ندی پر کھیلتے ہوئے سورج کی نرم اور گرم شعاعوں جیسے تھے۔ یہ ہاتھ تو بارش کے بعد آسمان میں نمودار ہونے والے ستاروں جیسے تھے۔ یہ ہاتھ بہت نرم اور نازک تھے۔ مور کے پروں کی مانند اور آم کے درخت پر فاختہ کے گھونسلے میں چوں چوں کرتے ننھے منے بچوں کی مانند۔ یہ ہاتھ تو گرم راتوں میں اچانک چلنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جیسے تھے۔ سمندر کے کنارے دو منفرد اور بہت پرکشش سیپیوں جیسے تھے وہ دو ہاتھ! وہ دو ہاتھ جو خوابوں کے پانیوں میں تو خوبصورت مچھلیوں کی طرح ایک ساتھ تیرتے تھے۔ وہ ہاتھ جو دن میں تتلیاں پکڑنے اور رات کو ہواؤں میں جلتے ہوئے جگنوؤں کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ ہاتھ کاٹ دیئے گیے!!
وہ ہاتھ کاٹ دیئے گئے اور کے الیکٹرک کے قاتلوں سے پوچھا جائے گا کہ ان ہاتھوں کو کس جرم میں کاٹا گیا؟ کیا ان ہاتھوں نے کنڈے لگائے تھے؟ کیا ان ہاتھوں نے میٹر کو پیچھے گھمایا تھا؟ کیا ان ہاتھوں نے بجلی کی تاریں کاٹ کر بیچی تھیں؟ کیا ان ہاتھوں نے غلط بل بنائے تھے؟ کیا ان ہاتھوں نے لوگوں کو بجلی کے حوالے سے بلیک میل کیا تھا؟ کیا ان ہاتھوں نے اندھیروں سے مل کر روشنیوں کے خلاف سازش کی تھی؟ کیوں کاٹا گیا ان ہاتھوں کو؟؟ کیا جرم تھا ان ہاتھوں کا؟؟؟
یہ ہاتھ شاید نیا پاکستان نہ بناتے، مگر یہ ہاتھ پرانے پاکستان کا تحفظ ضرور کرتے۔
یہ ہاتھ سرکاری حلف نامہ پکڑ کر وزارت کا عہدہ حاصل نہ کرتے، مگر یہ ہاتھ رزق حلال کماتے۔
یہ ہاتھ سیاسی انداز میں لہرا کر عوام کو استعمال نہ کرتے، مگر ایک غریب پڑوسی کی مدد ضرور کرتے۔
یہ بہت قیمتی ہاتھ تھے۔ یہ ہاتھ ہمارا قومی سرمایہ تھے۔ یہ ہاتھ ہمارا سہارا تھے۔ یہ ہاتھ ہمارا خواب تھے۔ یہ ہاتھ تاریخ کے ستمگر سوالات کا سرکش جواب تھے۔
وہ ہاتھ جن کو کے الیکٹرک نے اس طرح کاٹ دیا جس طرح بجلی کے تار سے الجھتی ہوئی درخت کی شاخ کو کاٹا جاتا ہے۔
کے الیکٹرک کے بے حس بابو لوگوں کو کیا معلوم کہ جب ایک غریب بچہ معذور ہو جاتا ہے، تب باپ کی کمر درد کے بوجھ سے جھک جاتی ہے، ماں کے نظر کے چشمے کا نمبر بڑھ جاتا ہے اور غربت کے مارے محلے میں بچوں کی دو شرارتیں مر جاتی ہیں۔
کے الیکٹرک کو کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی تو اس جرم کا حساب دینا ہوگا، جس جرم نے اس ملک کے مستقبل کو دو ہاتھوں سے محروم کرکے ہمیشہ کے لیے معذور کردیا ہے۔٭
٭٭٭٭٭