حجاج بن یوسف ایک جماعت کے پاس آیا۔ اس جماعت نے حجاج کے خلاف بغاوت کی تھی۔ حجاج نے جلادوں کو حکم دیا کہ سب کی گردنیں مار دی جائیں۔ چنانچہ جلادوں نے حسب حکم اپنی کارروائی شروع کر دی۔ ایک آدمی بچ گیا تھا کہ اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا۔ حجاج نے عنبسہ سے کہا:
’’ اس آدمی کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور اسے کل لے کر میرے پاس آنا۔ اس کا قصہ کل تمام کریں گے۔‘‘
دین اسلام ہمیں اپنی بات میں پکا رہنے اور وعدہ کی پاسداری کا حکم کرتا ہے۔ قرآن کریم ہے:
ترجمہ: ’’ اور عہد کو پورا کرو، یقین جانو کہ عہد کے بارے میں (تم سے) باز پرس ہونے والی ہے۔‘‘ (سورۃ الاسرائ: 34)
عنبسہ کہتے ہیں: ’’ میں اس آدمی کو لے کر چل پڑا۔‘‘
راستے میں وہ مجھ سے کہنے لگا: ’’ کیا آپ میرے ساتھ کچھ بھلائی کر سکتے ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’ وہ کیسے؟‘‘
کہنے لگا: ’’خدا کی قسم! میں نے کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف بغاوت میں حصہ نہیں لیا اور نہ میں ان کے خون کو حلال سمجھتا ہوں۔ میرے پاس لوگوں کی بہت ساری امانتیں اور اموال رکھے ہوئے ہیں۔ اگر آپ مجھے کل تک چھوڑ دیں تو میں ان سب لوگوں کو ان کا حق پہنچا کر واپس تمہارے پاس آجاؤں گا اور اس سلسلے میں تمہیں خدا کا عہد دیتا ہوں کہ میں ضرور کل لوٹ آؤں گا۔‘‘
میں اس کی باتوں پر حیرت کرنے لگا اور ہنسنے لگا کہ عجیب آدمی ہے، اس طرح بھی بھلا مجرموں کو کسی نے چھوڑا ہے۔
کچھ دیر ہم چلتے رہے اور پھر اس نے بات دہرائی۔ مجھے اس کی باتوں میں سچائی دکھنے لگی تو میں نے اسے کہا:
’’ ٹھیک ہے، جا چلا جا اور کل وعدے کے مطابق ضرور آجانا!‘‘
جب وہ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تو میرے ہوش اڑ گئے کہ یہ میں نے کیا کر دیا؟ ہانپتا گھر پہنچا اور گھر والوں کو پورا واقعہ بیان کیا۔ کہنے لگے کہ اس طرح تو تم نے حجاج سے لڑائی مول لی ہے۔ وہ رات میں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی رات کاٹی۔
جب صبح ہوئی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ شخص وعدے کے مطابق واپس آچکا تھا۔ میں نے حیرانگی سے اس سے پوچھا: ’’ کیا تم واپس آگئے؟‘‘
کہنے لگا: ’’ واہ ! کیوں واپس نہ آتا، جب کہ میں نے حق تعالیٰ کو کفیل بنایا تھا۔‘‘ میں اسے لے کر حجاج کے پاس گیا۔
حجاج نے پوچھا: ’’ تمہارا قیدی کہاں ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’ خدا تعالیٰ آپ کا بھلا کرے! وہ دروازے پر موجود ہے، لیکن اس آدمی سے متعلق میرے پاس ایک دلچسپ خبر ہے۔‘‘
حجاج نے کہا: ’’ کیا قصہ ہے؟‘‘
میں نے پورا واقعہ بیان کیا اور قیدی کو سامنے کر دیا۔
حجاج نے یہ قصہ سن کر حیرانگی کا اظہار کیا اور پھر مجھ سے کہا: ’’ کیا تم چاہتے ہو کہ یہ قیدی تمہیں ہبہ کر دوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’ ضرور!‘‘
حجاج نے مجھے وہ ہبہ کر دیا۔
میں اسے اپنے ساتھ لے کر وہاں سے روانہ ہوا اور کچھ آگے جا کر میں نے اس سے کہا:
’’ جس راستے پر تم جانا چاہو تم جا سکتے ہو، کیوں کہ تم میری طرف سے آزاد ہو۔‘‘
اس نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھا کر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور بغیر کوئی بات کیے وہاں سے چلا گیا۔
ہم سے کوئی بھی بھلائی کا معاملہ کرے ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور یہ اسلامی تعلیمات کا اہم باب ہے۔ چنانچہ
حدیث پاک میں ہے:
ترجمہ: ’’ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خالق کی بھی ناشکری کرتا ہے۔خدا تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔‘‘ (سنن الترمذی، البر والصلۃ، باب ما جاء فی الشکر، الرقم: 1900)
میں نے اپنے جی میں کہا: ’’ یہ آدمی تو مجھے پاگل لگتا ہے۔‘‘
وہ دوسرے دن آیا اور میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’خدا تعالیٰ تمہیں تمہاری نیکی کی بہترین جزا دے۔ کل میں تمہارا شکریہ ادا کیے بغیر چلا گیا تھا، وہ کسی جہالت یا لاعلمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض اس لیے کہ میں خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے وقت کسی کو اس کا شریک بنانا نہیں چاہتا تھا۔‘‘
(راحت پانے والے، تصنیف: شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض سعودی عرب)
٭٭٭٭٭