یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

0

صدارتی انتخاب کے حوالے سے اس بات کی تائید تو کی جا سکتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو صدر مملکت نہیں ہونا چاہیے، لیکن وہ نہیں ہونا چاہیے جو مولانا کی مخالفت میں پیپلز پارٹی کے مایوس امیدوار چوہدری اعتزاز احسن کا مطمعٔ نظر ہے کہ مولانا کے انتخاب سے ملک کے وقار کو ٹھیس پہنچے گی، بس یہی ہے وہ خبث باطن جس کا اظہار ہمارے نام نہاد مسلمان لیڈران فرنگیوں کو خوش کرنے کیلئے کیا کرتے ہیں، عرف عام میں اسے منافقت کہا جاتا ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن وطن عزیز کے جس وقار کے لیے پریشان ہیں، اس وقار کے ضمن میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا استدلال مذہب بے زاری کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے پہلے حافظ جی پی پی رہنما فرحت اللہ بابر، شیری رحمن اور بعض دوسرے رہنماؤں سے بھی صدارتی انتخاب کے معاملے میں اسی قسم کے کلمات سن چکے ہیں، جنہیں سن کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہودپی پی کے صدارتی امیدوار چوہدری اعتزاز احسن نے گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کی مخالفت ہی نہیں کی، بلکہ اس مخالفت کی آڑ میں انہوں نے خاصے بھونڈے انداز میں پیٹ بھر کر اسلام بے زاری کا اظہار کیا اور پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ ثابت کرنے کی بھی اپنی سی کوشش کر ڈالی۔ مذکورہ طرز تخاطب کے ذریعے چوہدری اعتزاز احسن نے کسے خوش کرنے کی سعی کی، یہاں اس وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے حامیوں کی بات تو اور ان کے مخالف بھی بخوبی جانتے ہیں کہ چوہدری اعتزاز احسن ہوں یا فرحت اللہ بابر، شیری رحمن ہوں یا عبد الرحمن ملک، یہ سب ایسے پاکستانی ’’مسلمان‘‘ ہیں، جنہیں اسلام اور قرآنی تعلیمات سے خدا واسطے کا بیر ہے، ان کی دنیوی قابلیت کے چرچے تو عام اور قابل ذکر ہیں، مگر بدقسمتی سے یہ سب کے سب دعائے قنوت تو دور کی بات، سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص پڑھنے سے بھی عاری ہیں، لیکن چاہتے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حاکمیت!
اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کے لبرلز، بانی پاکستان پر بھی کھلے عام سیکولر ہونے کا الزام لگاتے ہیں، چوہدری صاحب اپنے مذکورہ انٹرویو میں بھی یہی کہتے پائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں، تو بندئہ خدا آپ کیا سمجھتے ہیں یہ ملک جس میں ہم اور آپ آزادی سے رہ رہے ہیں، یہ خدا نخواستہ کسی اور کا پاکستان ہے؟ آپ اور آپ کی جماعت جب پاکستان میں حکمرانی کریں، جب آپ فرنگیوں کو خوش کرنے کے اقدامات کرکے دھڑلے سے مراعات سمیٹتے رہیں تو کیا اسی وقت یہ ملک قائد اعظم کا پاکستان ہوتا ہے؟ نہیں جناب! یہ ملک کل بھی قائد اعظم کا اسلامی جمہوریۂ پاکستان تھا، آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ چوہدری صاحب! حافظ جی کو یقین ہے کہ اپنے وسیع مطالعے کے سبب آپ قائد اعظم کے پاکستان سے متعلق فرامین سے ہرگز غافل نہ ہوں گے، مگر آپ کی مجبوری یہ ہے کہ آپ ڈور کہیں اور سے پکڑتے ہیں، ایسا کیوں؟ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ قائد اعظم نے14 فروری1947ء کو قیام پاکستان اور اس کے دستور سے متعلق شاہی دربار بلوچستان کے خطاب میں کیا فرمایا تھا؟ قائد اعظم نے اس موقع پر فرمایا تھا:
’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے، جو قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلامؐ نے ہمیں دیا، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر استوار رکھیں۔‘‘
8 مارچ 1944ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایا:
’’مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے، نہ وطن نہ نسل، ہندوستان میں جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرک کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری تھی، نہ ہی انگریزوں کی چال، بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔‘‘
12 جون 1947ء کو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھر کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے مسلم ریاست کے بارے میں واضح طور پر فرمایا:
’’مجھ سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کا طرز حکومت تو آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا، الحمد للہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور تاقیامت موجود رہے گا۔‘‘
اسلام اور جمہوریت کے ضمن میں قائد اعظم علیہ الرحمہ نے ایک بار کسی سوال کے جواب میں فرمایا ’’آپ مجھ سے فضول سوال کر رہے ہیں، گویا اب تک میں جو کہتا رہا ہوں، وہ سب رائیگاں گیا۔ آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا، ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال پہلے ہی سیکھ لی تھی۔‘‘ (بحوالہ: جناح تقریریں اور بیانات از: ایس ایم برگ)
جناب اعتزاز احسن کو قائد اعظم کے پاکستان کو ان کے مذکورہ بالا بیانات کی روشنی میں دیکھنا چاہئے، اگر وہ پاکستان اور اس کے طرز حکومت سے متعلق قائد اعظم کی سوچ اور ان کے اقدامات کا مزید مطالعہ کرنا چاہیں توکم از کم محمد خالد متین کی کتاب ’’اسلام کا سفیر‘‘ سید قاسم محمود کی کتاب ’’قائد اعظم کا پیغام‘‘ ایس ایم برگ کا مجموعہ ’’جناح تقریریں اور بیانات‘‘ اور اگر کہیں سے دستیاب ہو تو انگریز دانشور بیرلی نکلسن کی 1944ء میں قائد اعظم سے متعلق شائع ہونے والی کتاب (urdict on india) ضرور پڑھیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے روپ میں کسی اور کے پاکستان کی شبیہ تلاش نہ کریں۔ ویسے حافظ جی نے محسوس کیا ہے کہ مولانا کو صدر مملکت کی حیثیت سے دیکھنا آپ کو شاید اس لیے ناگوار گزرا ہے کہ ان کا تعلق ایک مذہبی طبقہ فکر سے ہے۔ ان کے چہرے پر داڑھی، سر پر عمامہ اور کاندھے پر رومال ہے۔ ان کی دینی وضع قطع پر اعتراض اٹھانے کا آپ کیا حق رکھتے ہیں؟ مولانا بھی آپ کی طرح ایک پاکستانی شہری ہیں اور صدارتی الیکشن لڑنا آپ کی طرح ان کا بھی حق ہے، ان کو منتخب کرنا یا نہ کرنا عوام اور عوامی نمائندوں کا کام ہے، آپ کون ہوتے ہیں اعتراض اٹھا کرمذہبی شعائر کو نشانہ بنانے والے؟ کیا کبھی دینی طبقے کی طرف سے کسی مذہبی رہنما نے آپ کے مغربی رنگ ڈھنگ پر اعتراض اٹھایا؟ یا کسی مولوی نے کہا کہ آپ کلین شیو کیوں ہیں؟ کوٹ پینٹ پہن کر گلے میں ٹائی کا پھندہ لگا کر فرنگیوں کی سی وضع قطع کیوں بناتے ہیں؟ کیا آپ کے نزدیک یہی چیزیں پاکستان کی پہچان ہیں؟ جناب عالی! اس میں دو رائے نہیں کہ آپ مولانا فضل الرحمٰن کو نہیں بلکہ کسی مولوی یا مذہبی شخصیت کو ریاست کے کسی بڑے عہدے پر براجمان دیکھنا نہیں چاہتے، اگر آپ کو یا آپ کی پارٹی کو مولانا فضل الرحمٰن سے عناد ہوتی تو صدارتی الیکشن سے قبل تک تو آپ کی اور آپ کی پارٹی کے لوگوں کی مولانا سے گاڑھی چھنتی تھی، پھر یہ اچانک کیا ہوا؟ مذہب سے آپ کی بیزاری کیلئے یہی مثال کافی ہے کہ آپ نے پارلیمنٹ میں قرآنی تعلیم کو درس وتدریس کا حصہ بنانے پر اعتراض کر کے مسترد کرا دیا تھا۔
گستاخی معاف! موجودہ صدارتی انتخابات کے تناظر میں ایک حافظ جی ہی نہیں اور بہت سے لوگ سوچتے ہوں گے کہ اعتزاز احسن اور پیپلز پارٹی کے لیڈران کی نظروں میں مولوی اتنا بے توقیر کیوں ہے؟ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ شرجیل میمن کا تو دفاع کرتی ہے، مگر مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی خواہشات کا خون کر دیتی ہے۔ ویسے مولانا کو بھی کل کے صدارتی الیکشن میں شکست کے بعد یہ ادراک ہو جانا چاہئے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت جس کے لئے وہ کشاں کشاں سر دھڑ کی بازی لگا دیا کرتے تھے، اسی پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس بار انہیں ٹشو پیپر سے زیادہ اہمیت نہ دی اور صدر مملکت کے عہدے کے لئے پی ٹی آئی کے عارف علوی کی راہوں کے کانٹے صاف کردیئے ہیں۔ اس تناظر میں شہباز شریف کی خاموش مفاہمت کو بھی سلام۔ امید ہے کہ مولانا کو ان معاملات سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز دونوں ہی کی دوستی کا ادراک ہو جائے ہوگا اور اب وہ آئندہ کے اقدامات میں محتاط قدم اٹھائیں گے۔ (وما توفیقی الاباللہ) ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More