نجم الحسن عارف/ محمد زبیر خان
حکومت کی جانب سے اکنامک ایڈوائزری کونسل میں شامل کیا گیا ڈاکٹر عاطف میاں نہ صرف ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کا پڑ پوتا ہے، بلکہ بیرون ملک پاکستان کے آئین اور قادیانیوں کے حوالے سے پارلیمنٹ کے فیصلے پر تنقید کرتا رہا ہے۔ ڈاکٹر عاطف میاں کا نہ صرف ربوہ میں قادیانی مرکز کے ساتھ گہرا رابطہ برقرار ہے، بلکہ پاکستان سے امریکہ جانے والے قادیانیوں میں بھی وہ کافی پاپولر ہے۔ اور یہ کہ اس کا پاکستان میں قادیانیوں کی سرگرمیوں میں حصہ موجود رہتا ہے۔ ادھر اکنامک ایڈوائزری کونسل میں ڈاکٹر عاطف کو شامل کرنے پر دینی جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں۔ تحریک لیبک، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے قادیانی مشیر کو نہ ہٹانے پر ملک گیر احتجاج کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے مشاورت کے لئے اجلاس طلب کرلیا ہے۔ تحریک لبیک کے رہنما پیر افضل قادری اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے امیر مولانا اللہ وسایا کا کہنا ہے کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر قادیانی خوش ہیں اور انہیں حکومتی عہدوں میں بہت زیادہ حصہ مل رہا ہے۔ یہ پالیسی عمران خان کے دعوئوں کے برعکس ہے اور اس کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور پرانے نظریاتی کارکنوں کی اکثریت اکنامک ایڈوائزی کونسل کے رکن نامزد کئے گئے سکہ بند قادیانی ڈاکٹر عاطف آر میاں سے آگاہ ہی نہیں۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما چوہدری سرور کا طویل عرصہ بیرون ملک گزرا ہے، لیکن وہ بھی ڈاکٹر عاطف کا میڈیا میں نام آنے سے پہلے اس ماہر معیشت سے بالکل واقف نہیں تھے۔ ان کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری سرور کے علاوہ جس کسی سے بھی پارٹی کے اندر اس نام کے بارے میں بات ہوئی، اسے نہیں معلوم کہ اس قادیانی کو کس کے کہنے پر ایڈوائزری کونسل کا حصہ بنایا گیا۔ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ایک اعلیٰ عہدیدار سے جڑے ذریعے نے بھی کہا کہ وہ لوگ ڈاکٹر عاطف میاں کے بارے میں پہلے سے کچھ نہیں جانتے۔ البتہ اب جب کہ یہ کنفرم ہو گیا ہے کہ وہ قادیانی ہے تو اس پر تشویش کا اظہار پارٹی قیادت اور پارٹی کے اندر کیا جائے گا۔ ادھر لاہور پی ٹی آئی کے سابق صوبائی صدر اور مرکزی رہنما اعجاز احمد چوہدری نے ’’ امت‘‘ کے استفسار پر کہا کہ ’’میں حکومت سازی کے عمل کا حصہ نہیں ہوں۔ تاہم مجھے اتنا اندازہ ہے کہ اگر اس حوالے سے عوامی ردعمل اور دباؤ آیا تو ہماری جماعت اور اس کی قیادت جمہوری مزاج کی حامل ہونے کے ناطے یہ فیصلہ واپس لے سکتی ہے‘‘۔
واضح رہے کہ عمران خان نے 2014ء کے دھرنے کے دوران 13 ستمبر کو اعلان کیا تھا کہ اگر وہ وزیر اعظم بن گے تو ڈاکٹر عاطف کو معاشی مشیر یا وزیر مقرر کریں گے۔ عمران خان کے اس اعلان پر عوامی سطح سے شدید رد عمل آیا تھا، جس کے بعد عمران خان نے برطانیہ کی ایک ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ اگر وہ برسر اقتدار آئے تو عاطف میاں کو وزیر بنائیں گے۔ عمران خان نے انٹرویو میں کہا تھا کہ… ’’میں نے ایک میگزین میں پڑھا تھا کہ دنیا کے 25 ماہر معاشیات میں سے ایک عاطف میاں ہیں۔ مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ انہوں نے ختم نبوت کے خلاف کوئی کمپین کی ہے‘‘۔ عمران خان نے کہا کہ… قرآن میں واضح لکھا ہوا ہے کہ آخری پیغمبر ہمارے پیارے نبی ﷺ ہیں اور جو ان کو آخری پیغمبر نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہو سکتا‘‘۔ عمران خان کے اس انٹرویو کے بعد قادیانیوں کے ترجمان جریدے، ربوہ ٹائم نے سرخی جمائی تھی کہ عمران خان اپنے بیان سے منکر ہوگئے ہیں کہ وہ برسر اقتدار آکر عاطف میاں کو وزیر بنائیں گے۔
عالمی مجلس ختم نبوت کے امیر مولانا اللہ وسایا نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عاطف میاں، جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کا پڑ پوتا ہے۔ قادیانی جماعت میں مزرا غلام احمد قادیانی کے قریبی رشتہ داروں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہی لوگ قادیانی جماعت میں اہم عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں، پالیسیاں مرتب کرتے ہیں اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں قادیانیوں کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ایک سوال پر مولانا اللہ وسایا کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ایک بااثر قادیانی کو مشیر بنانے کا اعلان کیا ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ تحریک تحفظ ختم نبوت کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس صورت حال پر غور کیلئے تمام رفقا کا اجلاس بلایا جائے گا، جس میں احتجاج کا لائحہ طے کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت یہ فیصلہ فوری طور پر واپس لے اور مسلمانوں کو احتجاج کرنے پر مجبور نہ کرے۔
تحریک لبیک پاکستان بھی اکنامک ایڈوائزری کونسل میں قادیانی ڈاکٹر عاطف میاں کو شامل کئے جانے پر سخت برہم ہے۔ تحریک لبیک کے مرکزی رہنما پیر افضل قادری نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ہمارے پاس ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف قادنیوں کے بہت قریب ہیں اور قادیانی حکمران جماعت میں اچھا خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس پر ہمیں پہلے ہی تشویش تھی اور ہم اس تشویش کا اظہار کرتے بھی رہے ہیں۔ لیکن عمران خان نے حکومت میں آنے سے قبل قادیانیوں اور ختم نبوت کے حوالے سے عوامی اجتماعات میں تقاریر کیں اور انتخابی مہم کے دوران بھی کہتے رہے کہ وہ ختم نبوت پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ لیکن اب انہوں نے قادیانیوں
کے انتہائی اہم فرد عاطف میاں کو انتہائی اہم کمیٹی کا رکن اور مشیر مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ انتہائی تشویش ناک ہے اور تحریک لبیک اس پر شدید احتجاج کرے گی‘‘۔ ایک سوال پر پیر افضل قادری کا کہنا تھا کہ ’’ختم نبوت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ اہم حکومتی عہدوں پر قادیانیوں کی تقرری کے خلاف سخت احتجاج کیا جائے گا۔ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے عاطف میاں کی تقرری کے حوالے سے حکومتی حلقوں تک اپنی تشویش پہنچا دی گئی ہے اور یہ طے ہے کہ قادیانی عاطف میاں کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر عاطف آر میاں کا نام عمران خان نے پہلی مرتبہ ستمبر 2014ء میں اپنے مشہور زمانہ دھرنے میں ایک تقریر کے دوران لیا تھا کہ ان کے وزیر خزانہ اس طرح کے لوگ ہیں۔ لیکن اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہ اس کا نام لے رہے تھے، انہیں اس وقت بھی اس کے بارے میں پوری طرح آگاہی نہ تھی۔ بلکہ ان کے کان میں ان کے دست راست جہانگیر ترین نے ڈاکٹر عاطف میاں کا نام انڈیلا تھا۔ اور اب ایک بار پھر اسے آگے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی غالب اکثریت اور نظریاتی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد کے سامنے یہ نام کبھی زیر بحث نہیں آیا اور ڈاکٹر عاطف کو اچانک ایڈوائزری کونسل میں شامل کر لیا گیا۔ 1967ء میں صدر ایوب خان نے اس وقت کے اقتصادی معاملات میں ایم ایم احمد کو ڈکیل کیا تھا۔ جسے بعد ازاں یحییٰ خان نے اپنے دور حکومت میں پورے وزیر کا عہدہ دے دیا۔ اب 1967ء کے بعد پاکستان کے ایک منتخب وزیر اعظم نے دوبارہ ایک سکہ بند قادیانی کو پاکستان کے معاشی معاملات کی اصلاح اور مشاورت کے لئے اپنی 18 رکنی ایڈوائزری کونسل میں شامل کیا ہے۔
’’امت‘‘ ذرائع کے مطابق عمران خان کی زبان سے پہلی مرتبہ اس کا نام ستمبر 2014ء میں دھرنے کے دوران جب سنا گیا تو ان دنوں ڈاکٹر عاطف آر میاں پرنسٹن یونیورسٹی کے استاد کے طور پر نہیں، بلکہ یونیورسٹی میں ایک نامی گرامی قادیانی ہونے کے ناطے قادیانیوں کے ساتھ پاکستان میں نام کی ’’مظالم‘‘ اور ان کے حقوق کے ایشوز پر ایک سیمینار کی تیاری کر رہا تھا۔ یہ تقریب اکتوبر 2014ء کے اواخر میں پرنسٹن یونیورسٹی میں ڈاکٹر عاطف آر میاں کے زیر نظامت منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف قادیانی وکیل ایڈووکیٹ مجیب الرحمان کے علاوہ مشہور صحافی رضا رومی بھی بطور خاص شریک ہوئے۔ اس تقریب میں بنیادی طور پر پاکستان کے آئین اور 1974ء میں پارلیمنٹ کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے کی بنیاد پر پاکستان کی پارلیمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اور آئین و پارلیمنٹ دونوں کے خلاف غم و غصے کا اظہارکیا گیا۔ ڈاکٹر عاطف آر میاں کی یہ تقریب قادیانیوں کے مرکز ربوہ کے نام سے منسوب آن لائن ’’ربوہ ٹائم‘‘ کے مطابق بہت کامیاب رہی۔ اس تقریب میں 130 افراد نے شرکت کی، جن میں بڑی تعداد پروفیسروں اور طلبہ کی بھی تھی۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عاطف میاں کا نہ صرف ربوہ میں قادیانی مرکز کے ساتھ گہرا رابطہ برقرار ہے، بلکہ پاکستان سے امریکہ جانے والے قادیانیوں میں بھی وہ کافی پاپولر ہے۔ اس لئے امریکہ جانے والے قادیانی اس سے پرنسٹن یونیورسٹی میں ضرور ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں اس کا پاکستان میں قادیانیوں کی سرگرمیوں میں بالواسطہ حصہ موجود رہتا ہے۔ اب ڈاکٹر عاطف آر میاں کی وزیر اعظم عمران خان کی اکنامک ایڈوائزری کونسل میں نامزدگی کو پاکستان اور بیرون ملک کی قادیانی کمیونٹی اپنی اہم کامیابی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عاطف کی معاشی مہارت کے بارے میں خود امریکہ میں زیادہ اچھی رائے نہیں ہے۔ امریکہ کے 2008ء کے دوران بدترین معاشی حالات میں ڈاکٹر عاطف میاں کا تجزیہ اور سفارشات ناکارہ ثابت ہوئی تھیں، جس کے بعد ڈاکٹر عاطف کو بعض مالیاتی اداروں نے اپنے پینل سے ہٹا دیا تھا۔ یاد رہے کہ 2008ء میں امریکی بینک اور انشورنس کمپنیاں بری طرح مالی مشکلات میں پھنس گئی تھیں اور سپر پاور امریکہ کے مستقبل میں معاشی دیوالیہ پن کی نشاندہی زبان زدعام ہونے لگی تھی۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں پاکستان میں قادیانی جماعت کے میڈیا ونگ سے رابطہ کیا تو میڈیا ونگ کے ایک ذمہ دار نے موقف اختیار کیا کہ ’’ اس بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔ اس لئے جیسے ہی مجھے ان کے بارے میں کوئی بات معلوم ہوتی ہے، آپ کو بتاؤں گا‘‘۔ تاہم بعد ازاں ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اعجاز احمد چوہدری کے ساتھ بھی بات چیت کی جو نذر قارئین ہے۔
س: چوہدری صاحب! ڈاکٹر عاطف آر میاں ایک سکہ بند قادیانی ہیں۔ جنہیں وزیر اعظم عمران خان نے اپنی اکنامک ایڈوائزری کونسل کا رکن نامزد کیا ہے۔ آپ اس رکن کونسل کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
ج: میں تو اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ بس اتنا ہی جانتا ہوں جتنا کہ میڈیا میں آیا ہے۔ لیکن انہیں وزیر تو نہیں بنایا۔ ایڈوائزری کونسل کا رکن ہی بنایا ہے۔
س: ایم ایم احمد نامی قادیانی کو ایوب خان نے بھی شروع میں مشیر ہی بنایا تھا۔ لیکن آج تک اس کے سازشی کردار پر بات ہوتی ہے۔
ج: دیکھیں ان کے ایمانیات سے متعلق معاملات کے حوالے سے میں بڑا کلیئر ہوں۔ لیکن انہیں آئین نے بعض حقوق دیئے ہیں۔ اس سے تجاوز نہیں ہے۔
س: آپ چونکہ مرکزی رہنما ہیں، اس پر کوئی مشاورت ہوئی؟
ج: میں حکومت سازی کا حصہ نہیں ہوں، اس لئے مجھے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر عوامی مطالبہ آیا اور دباؤ بڑھا تو عمران خان اس فیصلے کو واپس لیتے ہوئے ایڈوائزری کونسل سے انہیں فارغ بھی کر سکتے ہیں۔
س: کیا ضرورت تھی کہ ایک ایسے فرد کو جو ایسی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے جو ملکی آئین کو تسلیم نہیں کرتی، اسے مشیر بنایا جائے؟
ج: ملک میں آئین کو نہ ماننے والوں میں تو بہت سارے لوگ ہیں۔ خود متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی خان، محمود خان اچکزئی اور اس طرح کے بہت سے لوگ ہیں۔ بعض آئین کی دفعہ 2-A کو نہیں مانتے، بعض کچھ اور کہتے ہیں۔ اس لئے جس شخص کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ ہے، اسے کوئی ایسی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اقتصادی ماہر ہے۔ لیکن میں بھی سمجھتا ہوں کہ ایمانیات کا
معاملہ بہت حساس ہے۔ اس لئے پارٹی خود ہی سوچ لے گی۔ کوئی میٹنگ ہوئی تو میں بھی بات کروں گا۔