پہلاحصہ
قبل از اسلام حضرت ابو طلحہ انصاریؓ، عام اہل عرب کی طرح بت پرست تھے۔ بڑے اہتمام سے شراب پیتے تھے اور اس کے لئے ان کے ندیموں کی باقاعدہ ایک مجلس تھی۔
ابھی زمانہ شباب کا آغاز تھا۔ بہ مشکل بیس سال کی عمر ہوگی کہ آفتاب نبوتؐ طلوع ہوا۔ حضرت ابو طلحہؓ نے حضرت اُم سلیمؓ (حضرت انسؓ کی والدہ ماجدہ) کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کی شرط لگا دی، جس کا اثر یہ ہوا کہ ابو طلحہؓ دین حنیف قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے اور نکاح طے پاگیا۔
یہ وہ وقت تھا، جب حضرت مصعب بن عمیرؓ اسلام کے پر جوش شیدائی، شہر یثرب میں دین اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے۔ مدینہ کا جو مختصر قافلہ بیعت کے لئے روانہ ہوا تھا، اس میں حضرت ابو طلحہؓ بھی شامل تھے۔ اس بیعت میں حضرت ابو طلحہؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ آنحضرتؐ نے ان کو انصار کا نقیب تجویز فرمایا۔
اسلامی مواخاۃ: بیعت عقبہ ثانیہ کے چند مہینے کے بعد خود حامل وحیؐ نے مدینہ کی جانب ہجرت کا ارادہ فرمایا اور یہاں آکر مہاجرین و انصار میں اسلامی برادری قائم فرمائی۔ مہاجرین میں سے حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح قریشی کو حضرت ابو طلحہ انصاریؓ کا بھائی بنایا گیا تھا، جن کو ایمان کی پختگی کی بدولت دربار رسالت سے امین الامۃ (امت کے سب سے بڑے امانت دار) کا خطاب عطا ہوا تھا اور جناب رسول اقدسؐ نے ان کو جنت کی بشارت سنائی تھی اور وہ عشرہ مبشرہ میں ہیں۔
غزوات میں شمولیت:
غزوۂ بدر اسلام کی تاریخ کا پہلا غزوہ ہے۔ حضرت ابو طلحہؓ نے اس میں جوش و خروش سے حصہ لیا تھا۔ بدر کے بعد غزوۂ احد ہوا۔ وہ حضرت ابو طلحہؓ کی جانبازی کی خاص یادگار ہے۔ معرکہ اس شدت کا تھا کہ بڑے بڑے بہادروں کے قدم اکھڑ رہے تھے، لیکن حضرت ابو طلحہؓ آنحضرتؐ کے آگے ڈھال کی صورت سینہ تانے کھڑے رہے، تاکہ آپؐ کی طرف اگر کوئی تیر آئے تو میں اس کا نشانہ بن جاؤں اور حضور اقدسؐ محفوظ رہیں۔
اس روز آپؓ نہایت جوش میں یہ شعر پڑھ رہے تھے:
نفسی لنفسک الفدآء
ووجھی لوجھک الوقاء
’’میری جان آپ کی جان پر قربان اور میرا چہرہ آپ کے چہرے پر فدا ہو‘‘۔
آپؓ ترکش میں سے تیر نکال کر ایسا جوڑ کر مارتے کہ مشرکوں کے جسم میں پیوست ہو جاتا۔ جب آنحضرتؐ یہ تماشا دیکھنے کے لئے سر اٹھاتے تو حضرت ابو طلحہؓ حفاظت کے لئے سامنے آجاتے اور کہتے ’’نحری دون نحرک‘‘ (میرا سینہ آپ کے سینے سے پہلے حاضر ہے) آنحضرتؐ اس جان نثاری اور سرفروشی سے خوش ہوکر فرماتے: پوری فوج میں سیدنا ابو طلحہؓ کی آواز، سو آدمی سے بہتر ہے۔
حضرت ابو طلحہؓ نے غزوہ احد میں نہایت پامردی سے مشرکین کا مقابلہ کیا۔ آپؓ بڑے تیر انداز تھے۔ تیر پھینک پھینک کر اس دن دو تین کمانیں آپ کے ہاتھ سے ٹوٹیں۔ اس وقت آپ کے سامنے دو باتیں اہم تھیں۔ ایک مسلمان کی شکست کا خیال، دوسرے رسول اکرمؐ کی حفاظت کا مسئلہ۔ رسول اقدسؐ کی حفاظت جس ہاتھ سے کررہے تھے، وہ شل ہوگیا، مگر انہوں نے اف تک نہ کی۔
غزوۂ خیبر میں حضرت ابو طلحہؓ کا اونٹ آنحضرتؐ کے اونٹ کے بالکل برابر تھا۔ اس غزوے میں بھی وہ اس حیثیت سے نمایاں رہے۔
غزوۂ حنین میں حضرت ابو طلحہؓ نے شجاعت کے خوب جوہر دکھائے۔ 20، 21 کافروں کو قتل کیا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا تھا جو شخص جس آدمی کو مارے اس کے سارے اسباب کا مالک سمجھا جائے گا۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہؓ نے بیس اکیس آدمیوں کا سامان حصہ میں حاصل کیا تھا۔ آنحضرتؐ کے غزوات میں یہ آخری غزوہ تھا جو کہ 8ھ میں واقع ہوا تھا۔
خوبصورت گھریلو زندگی:
حضرت ابو طلحہؓ کے خانگی حالات میں دو چیزیں بہت نمایاں ہیں۔ نکاح اور اولاد۔ ان کا نکاح حضرت ام سلیمؓ سے ہوا تھا۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ مالک بن نضر (حضرت انسؓ کے والد) ہجرت نبویؐ سے قبل اپنی بیوی ام سلیمؓ سے ان کے اسلام قبول کرنے پر ناراض ہوکر شام چلے گئے تھے۔ جب وہاں ان کا انتقال ہوگیا تو ابو طلحہؓ نے ام سلیمؓ کو پیغام نکاح بھیج دیا۔ انہوں نے کہا میں تمہارا پیام رد نہیں کرتی، لیکن تم کافر ہو اور میں مسلمان۔ میرا نکاح تمہارے ساتھ جائز نہیں، اگر تم اسلام قبول کرلو تو مجھے نکاح میں غدر نہ ہوگا اور تمہارا اسلام ہی میرا حق مہر ہوگا۔ حضرت ابو طلحہؓ مسلمان ہوگئے اور ان کا قبول اسلام ان کا حق مہر قرار پایا۔ حضرت ثابتؓ کہتے ہیں کہ میں نے کسی عورت کا مہر ام سلیمؓ سے افضل نہ دیکھا نہ سنا۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post