اس کالم کی ابتدا مشہور ادیب اور جرنلسٹ ابراہیم جلیس کے افسانے ’’کراچی‘‘ سے بھی ہو سکتی ہے۔ نفرت کے گھیرے میں موجود اس محبت سے جو اپنے شہر سے کی جاتی ہے۔ اس شہر سے جس کی گلیاں اور گھر دیکھتے دیکھتے ایک بچہ جوان اور ایک جوان بوڑھا ہو جاتا ہے۔ وہ شہر جس کے راستوں سے دوستی ہو جاتی ہے۔ جس کے چوراہوں سے انسان عجیب سی اپنائیت محسوس کرتا ہے۔ جس کے بازار اپنے لگتے ہیں اور جس میں اجنبی چہرے بھی شناسا محسوس ہوتے ہیں۔ وہ شہر جس کی صبحوں میں ایک موہوم سی امید چھوٹے بچے کی طرح آہستہ آہستہ بڑھتی ہے۔ وہ شہر جس کی شاموں میں یادوں کی کئی مشعلیں جلتی ہیں۔ ہر شہر ہر محبوب کی مانند خوبصورت ہوتا ہے۔ اگر اس شہر کا نام کراچی ہو تو پھر بات خوشونت سنگھ کے ناول ’’دلی‘‘ سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔
ہر شہر کے بارے میں شاعری نہیں ہو سکتی۔ ادب میں جس شہر کا بھی ذکر آیا ہے، الگ انداز سے آیا ہے۔ پشاور سے لے کر لاہور اور کوئٹہ تک ہر شہر کی اپنی کہانی اور اپنا مزاج ہے۔ آرٹیفیشل شہر اسلام آباد کے بارے میں رومانوی مصنف نے بھی ’’گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی‘‘ جیسا عنوان لکھا۔ مگر یہ بات پشاور اور اس لاہور کے لیے نہیں لکھی جاسکتی، جس میں صدیوں کا سفر ایک پل میں طے ہو جاتا ہے۔ جب کہ کراچی ایک لمحے میں ایک صدی کے انتظار کی اذیت اور الفت دینے والا شہر ہے۔ یہ شہر ایک شاپ کیپر نہیں ہے۔ یہ شہر کوئی تاجر نہیں ہے۔ یہ شہر کوئی دہشت گرد، کوئی پیشہ ور قاتل اور کوئی کرائے کا محبوب نہیں ہے۔ یہ شہر اپنے مزاج میں ایک ایسا سوداگر بھی ہے، جو ایک سنسان اور سنسناتی رات میں چڑھتی ہوئی موج پر اپنا سفینہ رکھ کر سمندر میں بہت دور نکل جاتا ہے۔
اس شہر کے بارے میں ہر ایک کی الگ رائے ہے۔ اس شہر سے ہر کوئی اپنے ڈھنگ سے محبت کرتا ہے۔ مگر وہ ساری محبتیں اگر برائے نام نہ ہوتیں تو کیا اس شہر کی حالت ایسی ہوتی۔ انسان اور شہر میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ انسان وقت کے ساتھ بوڑھا اور شہر وقت کے ساتھ جوان ہوتا جاتا ہے۔ مگر کراچی کے بارے میں یہ بات درست نہیں ہے۔ اس شہر میں آج بھی ایک ایسا دریدہ دامن ہے، جس میں بہت سارے شاپنگ مالز کے پیوند لگے ہوئے ہیں۔ اس شہر کی تکلیف اور اس شہر کی اذیت صرف اس شہر کا اپنا سمجھ سکتا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس شہر سے اپنوں نے بھی غیروں جیسا سلوک کیا۔ اگر اس شہر سے حاصل ہونے والی محبتوں کا کوئی صلہ لوٹانا چاہتا تو وہ بہت کچھ کرسکتا تھا۔ مگر نہ کرنے کے بہت سارے بہانے ہیں۔ شہر تو بوڑھی ماں جیسا ہوتا ہے۔ ماں سے محبت کا اظہار تو ہرکوئی کرتا ہے، مگر اس محبت کا ثبوت خدمت کر کے ہر کوئی پیش نہیں کرتا۔
اگر ہم پرویز مشرف کو پاکستان کا جائز صدر نہ سمجھیں، تب بھی کراچی کے شریف بیٹے ممنون حسین پورے پانچ برس تک ایوان صدر کی زینت بنے رہے۔ انہوں نے بطور صدر پاکستان کے لیے ایسا کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا، جس کو تاریخ میں یاد رکھا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے پانچ برس کے دوران کراچی کے قرض ادا کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ حالانکہ وہ کراچی والے تھے۔ صرف مکین کا مکان پر حق نہیں ہوتا، بلکہ مکان کا مکین پر بھی حق ہوتا ہے۔ وہ حق ممنون حسین نے ادا نہیں کیا۔ وہ کوئی گورنر نہیں تھے۔ ان کے کسی عمل سے وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان کسی قسم کی کشمکش پیدا نہ ہوتی۔ وہ صدر تھے اور سب کے صدر تھے۔ وہ اگر ہفتے کا ایک دن کراچی میں بیٹھ جاتے تو اس شہر کے بہت سارے درد دور ہو جاتے۔ کراچی کا معاملہ ایسا ہے، جیسے فیض کے یہ بول:
’’ہر چارہ گر اپنی چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمارے درد بہت لادوا نہ تھے‘‘
کراچی کے مسائل بہت ہیں تو کراچی کے وسائل بھی کم نہیں۔ اگر کراچی کے وسائل دیانت کے ساتھ کراچی پر استعمال کیے جائیں تو یہ ٹوٹتا پوٹھتا شہر ایک بار پھر موسم بہار میں خوبصورت بیل بن جائے۔ یہ شہر جس میں زندگی صرف روتی ہی نہیں، بلکہ چیختی چلاتی ہے۔ یہ شہر جس کی روح اپنوں کو بلاتی ہے۔ مگر اس شہر کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ اگر اس شہر کی آواز اس شہر کے بیٹے نے سنی ہوتی تو ایوان صدر میں ہر ہفتے کراچی کے مسائل پر ایک دربار لگتا۔ اس میں کراچی کی فریاد سنی جاتی اور کراچی سے انصاف کیا جاتا۔ کراچی مسلسل بے انصافی کا شکار رہنے والا شہر ہے۔ مگر اس شہر کے بیٹے صدر ہوتے ہوئے بھی اس شہر کے لیے کچھ نہ کرسکے، جس شہر کی آغوش میں یہ پلے بڑھے تھے۔
یہ کتنا عجیب اتفاق ہے کہ جس دن ایوان صدر کو کراچی کا ایک بیٹا الوداع کرے گا، اسی دن ایوان صدر کراچی کے دوسرے بیٹے کو خوش آمدید کہے گا۔ ممنون حسین کے بعد عارف حسین علوی کراچی سے تعلق رکھنے والے دوسرے صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کا حلف لیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ صدر کسی ایک جماعت یا ایک صوبے یا ایک شہر کا نہیں ہوتا، مگر ایک جماعت، ایک صوبہ اور ایک شہر یہ امید ضرور رکھتا ہے کہ اس کی فریاد ترجیحی بنیادوں پر سنی جائے۔ کیا کراچی اب یہ امید کرے کہ وہ فرض جو ممنون حسین ادا نہ کر پائے، اس فرض کی ادائیگی عارف حسین علوی بھرپور انداز سے کریں گے؟
کراچی میں بہت سرمایہ ہے، مگر یہ پھر بھی سرمایہ داروں کا شہر نہیں۔ یہ شہر دو طبقات کے پاٹوں کے درمیان پستی ہوئی مڈل کلاس کا شہر ہے۔ وہ مڈل کلاس جو کرائے کے گھر میں رہتی ہے اور قسطوں پر سامان خرید کر بیٹی کا جہیز بناتی ہے۔ وہ مڈل کلاس جس کے بچوں کی آخری امید تعلیم ہوتی ہے۔ وہ مڈل کلاس جو جینے کی حسرت میں پل پل مرتی رہتی ہے۔ وہ مڈل کلاس جس کی طبقاتی کہانی دھوکوں کی طویل داستان ہے۔ وہ مڈل کلاس جس کو امید اور مایوسی کا بہت بڑا تجربہ ہوتا ہے۔ وہ مڈل کلاس جس کی زندگی چڑھائی پر مسلسل بڑھنے کا منظر ہے۔ وہ مڈل کلاس جس کی معاشی اور معاشرتی ترقی کی جدوجہد انگنت زخموں سے عبارت ہوتی ہے۔ وہ مڈل کلاس جو اڑتی نہیں ہے، مگر امید کی طرح تیرتی ہے اور تھکی ہوئی بانہوں کے سہارے لہروں سے لڑتے ہوئے ساحل کی طرف بڑھتی ہے۔ اس مڈل کلاس سے تعلق رہا ہے اس عارف حسین علوی کا، جو مڈل کلاس امیر ہونے کے باوجود بھی اپنا طبقہ مکمل طور پر نہیں چھوڑ پاتی۔ اس کی ذات میں مڈل کلاس احساس کی کسک رہ جاتی ہے۔ وہ کسک کبھی احساس کمتری بن جاتی ہے، کبھی احساس برتری اور کبھی کبھی ذات کی آگہی!
معلوم نہیں کہ شاعر لوگ کتنے صحیح اور کتنے غلط ہیں؟ وہ شاعر لوگ جو بہت ساری عجیب باتوں میں یہ بات بھی شامل کرتے ہیں کہ ہر شہر کی ایک روح ہوتی ہے۔ شہر ایک مکمل وجود ہوتا ہے۔ اس کا دل بھی ہوتا ہے۔ اس کی چھاتی بھی ہوتی ہے۔ اس کی بانہیں اور اس کے ہاتھ بھی ہوتے ہیں اور اس کے ہونٹ اور اس کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں۔ وہ آنکھیں جو اکثر دھوئیں اور کبھی کبھی خوشی سے بھی بھر آتی ہیں۔ اس شہر کے زخمی ہونٹوں پر اس وقت بھی مسکراہٹ ابھری ہوگی، جب اس کے بیٹے ممنون حسین کو ریاست کے سب سے بڑے منصب پر بٹھایا گیا۔ اس شہر کی آنکھوں میں مسرت کی نمی اس وقت بھی چمکے گی، جب اس کا دوسرا بیٹا اسی منصب فائز ہو گا۔ اس شہر نے تو اپنی فضاؤں، اپنے حالات کی اداؤں اور اپنی دعاؤں سے ممنون کے بعد عارف کو ایوان صدر تک پہنچایا، مگر کراچی کا وہ بیٹا اپنے ملک کے ساتھ ساتھ اپنے اس شہر کے لیے کیا کرے گا؟ جس شہر نے بہت برداشت کیا ہے!
عارف حسین علوی نے کراچی میں رہتے ہوئے بہت کچھ دیکھا ہے۔ اگر وہ اس شہر کی یادداشتیں رقم کریں تو ایک قیمتی کتاب وجود میں آسکتی ہے۔ انہوں نے صرف اس کراچی کو بھی دیکھا ہے، جو بہت چھوٹا سا اور بے حد صاف ستھرا شہر تھا۔ وہ شہر جو ساحل سمندر سے لے کر مزار قائد تک محدود تھا۔ وہ شہر جس میں بادل اگست کا انتظار نہیں کرتے تھے اور پہلے چھا جاتے تھے۔ جس میں غیر ملکی سیاح اس طرح چلتے تھے، جس طرح یہ شہر ان کا اپنا ہو۔ وہ کراچی جس میں کیفے کلچر تھا۔ وہ کراچی جس میں علم اور ادب کی روشنی تھی۔ وہ کراچی جو ایک مشاعرے میں ’’مکرر‘‘ کی صدا تھا۔ وہ کراچی کلاشنکوف کا برسٹ اور بوری میں بند لاش کس طرح بن گئی؟
عارف حسین علوی کی آنکھوں نے اس شہر کے عروج کو بھی دیکھا ہے اور زوال کو بھی! وہ شہر جس میں کرایہ کم پڑنے یا آخری ویگن نکلنے کے باعث ایک شخص آدھی رات کو سنسان سڑک پر سیٹی بجاتا گھر آتا تھا اور اس کو لٹنے یا مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا، اس شہر میں کرفیو کے سائے کس طرح آنسو گیس کے شیل پھینکتے آئے اور کس طرح ایمبولینسوں کے سائرن مقتول بیٹوں کی مظلوم ماؤں کی مانند چیختے چلاتے رہے۔ کس طرح زندگی کے ایک موڑ پر عبد الستار ایدھی نے سیاسی سازشوں کے باعث اس شہر کو اس طرح چھوڑنے کا فیصلہ کیا، جس طرح ابن انشاء نے لکھا تھا:
’’انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا‘‘
یہ شہر جو صرف ابراہیم جلیس کا نہیں، ابن انشاء کا بھی ہے۔ اس شہر کے لیے شاعروں نے اشعار، ادیبوں نے افسانے اور صحافیوں نے پرخطر اسٹوریز لکھی ہیں۔ اس شہر کے ایک بیٹے کے بعد اس شہر کا دوسرا بیٹا ایوان صدر میں داخل ہو رہا ہے۔ کیا یہ بدقسمت ماں جیسے شہر اپنے خوش قسمت بیٹے سے یہ توقع رکھے کہ وہ ایوان صدر میں داخل ہونے کے بعد ’’کراچی کے صدر‘‘ کو یاد نہیں بھولے گا۔
وہ اس شہر کو یاد رکھے گا اس محبت کی طرح جو زندگی میں صرف ایک بار کی جاتی ہے۔ جس محبت کے بارے میں امر جلیل نے بڑی خوبصورت بات لکھی تھی۔ امر جلیل نے لکھا تھا کہ ’’انسان رہتا تو اس کے ساتھ ہے جس سے شادی ہوتی ہے، مگر انسان کی زندگی اس کے ساتھ گزرتی ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔‘‘ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post