طلاق کے چند ماہ بعد خدا نے مجھے بیٹا عطا فرمایا۔ اس کا نام میں نے محمد رکھا۔ اب یہ بیٹا دس برس کا ہے۔ وجیہ و شکیل اور بڑا ذہین ہے۔ اسے ہی دیکھ دیکھ کر میں جیتی ہوں۔ اب میں نے اپنے آپ کو خدا کے فضل سے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کر دیا ہے اور جی چاہتا ہے کہ بقیہ زندگی اسی مبارک فریضے کی نذر ہو جائے۔ یہ بھی خدا کا فضل ہے کہ میں نے قرآن کو خوب پڑھا ہے۔ امریکہ میں اس وقت قرآن کے ستائیس ترجمے دستیاب ہیں، میں نے ان میں سے دس کا بالاستیعاب مطالعہ کر لیا ہے۔ عربی زبان بھی سیکھ لی ہے اور جہاں ترجمے میں کوئی بات کھٹکتی ہے، فون پر عربی کے کسی اسکالر سے معلوم کر لیتی ہوں۔ خدا کے فضل سے میں مختلف کتب حدیث یعنی بخاری، مسلم، ابو داؤد اور مشکوٰۃ کا کئی کئی بار مطالعہ کر چکی ہوں اور اسلام کو جدید ترین اسلوب میں سمجھنے کے لیے مختلف مسلمان علما کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ جب تک ایک مبلغ قرآن، حدیث اور اسلام کے بارے میں بھرپور معلومات نہ رکھتا ہو تو وہ تبلیغ کے تقاضوں سے کما حقہ عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔
ایک زمانہ تھا کہ میں اتوار کا دن آرام کرنے کے بجائے کسی سنڈے اسکول میں بچوں کو عیسائیت کے اسباق پڑھاتی تھی۔ آج خدا کے کرم سے میں اتوار کا دن اسلامک سینٹروں میں گزارتی ہوں اور وہاں مسلمان بچوں کو دینی تعلیم دینے کے علاوہ دیگر مضامین بھی پڑھاتی ہوں۔ لاس اینجلس میں مختلف مقامات پر مختلف نوعیت کی نمائشوں، کانفرنسوں اور مجالس مذاکرات کا اہتمام کر کے غیر مسلموں تک دین اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ میں نے آپ لوگوں کو تبدیلی مذہب کے لیے نہیں بلایا، بلکہ اس لیے زحمت دی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اسلام سے کیوں وابستہ ہوں، زندگی کی کیا حقیقت ہے؟ اور انسان اور خدا کا باہمی تعلق کیا ہے؟ میں بفضل خدا ریڈیو اور ٹی وی پر بھی اسلامی تعلیمات پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
یہ بھی خدا ہی کی توفیق ہے کہ میں نے مختلف مقامات پر مسلم وومن اسٹڈی سرکل قائم کیے ہیں، جن میں غیر مسلم خواتین بھی آتی ہیں۔ میں انہیں بتاتی ہوں کہ اسی امریکہ میں آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے عورتوں کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی تھی اور ایک عورت کو گھوڑے سے بھی کم قیمت پر یعنی ڈیڑھ سو روپے میں خریدا جا سکتا تھا۔ بعد کے ادوار میں بھی عورت کو باپ یا شوہر کی جائیداد میں سے کوئی حصہ نہ ملتا تھا، حتیٰ کہ اگر وہ شادی کے موقع پر ایک لاکھ ڈالر شوہر کے گھر میں لے جاتی اور چند ہی ماہ بعد طلاق حاصل کرنا پڑتی تو وہ ساری رقم شوہر کی ملکیت قرار پاتی تھی۔ تعلیم کے مواقع بھی اسے میسر نہ تھے۔
اس ایٹمی و سائنسی دور میں بھی صورت حال یہ ہے کہ امریکہ میں عملاً عورت دوسرے درجے کی شہری ہے۔ وہ مردوں کے برابر کام کرتی ہے، مگر معاوضہ ان سے کم پاتی ہے، وہ ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ پندرہ برس کی کم عمر کے بعد والدین بھی اس کی کفالت کا ذمہ نہیں لیتے اور اسے خود ملازمت کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ شادی کے بعد طلاق کا خوف اسے ہمہ وقت گھیرے رکھتا ہے اور طلاق کے بعد جو یورپین زندگی کا لازمہ بن گئی ہے، نہ والدین اور نہ بھائی اس کا غم بانٹتے ہیں۔ بچوں کی ذمہ داری بھی اس کے سر پڑتی ہے اور سابق شوہر بچوں کا بمشکل تیس فی صد خرچ برداشت کرتے ہیں، یعنی پچاس ڈالر ماہوار کے حساب سے ادا کرتے ہیں، جس سے ایک بچے کا جوتا خریدنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post