قادسیہ میں مسلمانوں کے ساتھ معرکے میں ایران کا مشہور زمانہ پہلوان رستم لڑائی برابر ٹالتا جا رہا تھا، لیکن حضرت مغیرہؓ کی گفتگو نے اس کو اس قدر غیرت دلائی کہ اسی وقت کمر بندی کا حکم دے دیا۔ نہر جو بیچ میں حائل تھی، اس کے بارے میں حکم دیا کہ صبح ہوتے ہی پاٹ کر سڑک بنا دی جائے۔ صبح تک یہ کام انجام کو پہنچا اور دوپہر سے پہلے پہلے فوج نہر کے اس پار آگئی۔ خود سامان جنگ سے آراستہ ہوا۔ دوہری زرہیں پہنیں۔ سر پر خود رکھا۔ ہتھیار لگائے پھر اسپ خاصہ (خاص گھوڑا) طلب کیا اور سوار ہو کر جوش میں کہا کہ ’’کل عرب کو چکنا چور کر دوں گا‘‘
کسی سپاہی نے کہا ’’ہاں اگر خدا نے چاہا‘‘ بولا کہ ’’خدا نے نہ چاہا تب بھی۔‘‘
فوج کو نہایت ترتیب سے آراستہ کیا۔ آگے پیچھے صفیں قائم کیں۔ قلب کے پیچھے ہاتھیوں کا قعلہ باندھا۔ ہودجوں میں ہتھیار بند سپاہی بٹھائے۔ میمنہ ومیسرہ کے پیچھے قلعہ کے طور پر ہاتھیوں کے پرے جمائے۔ خبر رسانی کیلئے موقع جنگ سے پایہ تخت تک کچھ کچھ فاصلے پر آدمی بٹھا دیئے۔ جو واقعہ پیش آتا تھا، موقع جنگ کا آدمی چلا کر کہتا تھا اور درجہ بدرجہ مدائن تک خبر پہنچ جاتی تھی۔
قادسیہ میں ایک قدیم شاہی محل تھا، جو عین میدان کے کنارے پر واقع تھا۔ کمانڈر انچیف سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کو چونکہ عرق النساء کی شکایت تھی اور چلنے پھرنے سے معذور تھے، اس لئے فوج کے ساتھ شریک نہ ہوسکے۔ بالاخانے پر میدان کی طرف رخ کرکے تکیہ کے سہارے سے بیٹھے اور خالد بن عرفطہؒ کو اپنے بجائے سپہ سالار مقرر کیا۔ تاہم فوج کو لڑاتے خود تھے۔ یعنی جس وقت جو حکم دینا مناسب ہوتا تھا پرچوں پر لکھوا کر، گولیاں بنا کر خالدؒ کی طرف پھینکتے جاتے تھے اور خالدؒ انہی ہدایتوں کے مطابق، موقع بموقع لڑائی کا اسلوب بدلتے جاتے تھے۔
تمدن کے ابتدائی زمانے میں فن جنگ کا اس قدر ترقی کرنا لائق تعجب اور عرب کی تیزی طبع اور لیاقت جنگ کی دلیل ہے۔
فوجیں آراستہ ہوچکیں تو عرب کے مشہور شعراء اور خطیب صفوں سے نکلے اور اپنی آتش فشانی سے تمام فوج میں آگ لگا دی۔ شعرا میں شماخ، اوس بن مغرائ، عبدۃ بن الطیب، عمرو بن معدی کرب اور خطیبوں میں قیس بن ہبیرہ، غالب ابن الہذیل الاسدی، بسربن ابی رہم الجہنی، عاصم بن عمرو، ربیع معدی، ربعی بن عامر میدان میں کھڑے تقریریں کررہے تھے اور فوج کا یہ حال تھا کہ گویا ان پر کوئی جادو کر رہا ہے۔
اس کے ساتھ قاریوں نے میدان میں نکل کا نہایت خوش الحانی اور جوش سے سورۃ توبہ سے جہاد کی آیتیں پڑھنی شروع کیں۔ جس کی تاثیر سے دل دہل گئے اور آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ سیدنا سعدؓ نے قاعدے کے موافق تین نعرے مارے اور چوتھے پر لڑائی شروع ہوئی۔
سب سے پہلے ایک ایرانی، دیباج کی قبا زیب بدن کیے زریں کمر بند لگائے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے میدان میں آیا۔ ادھر سے سیدنا عمرو بن معدی کربؓ اس کے مقابلے میں نکلے۔ اس نے تیر کمان میں جوڑا اور ایسا تاک کر مارا کہ یہ بال بال بچ گئے۔ انہوں نے گھوڑے کو دابا اور قریب پہنچ کر کمر میں ہاتھ ڈال کر اٹھایا اور زمین پر دے پٹخا اور تلوار سے گردن اڑا کر فوج کی طرف مخاطب ہوئے کہ ’’یوں لڑا کر تے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا ’’ہر شخص ابن معدی کرب کیونکر ہو سکتا ہے؟‘‘ (بے مثال واقعات)
Prev Post
Next Post