ایک مرتبہ بچپن میں حضرت ابن الزبیرؓ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو وہاں سے امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کا گزر ہوا تو سب بچے بھاگ گئے اور یہ کھڑے رہے تو حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کیا بات ہے، اپنے دوستوں کے ساتھ تو نہیں بھاگا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا کہ بھاگتا اور راستے میں کوئی تنگی نہیں تھی کہ آپ کے لئے مجھے گنجائش نکالنے کی ضرورت ہوتی (یعنی راستہ کشادہ تھا، آپؓ آسانی سے میرے پاس سے گزر سکتے تھے) آپؓ کے اس دلیرانہ جواب سے امیر المؤمنین بہت خوش ہوئے اور آپؓ کو دعا دی اور تشریف لے گئے۔
سنان بن مسلمہ جو بحرین کے امیر تھے، فرماتے ہیں کہ جب مدینہ میں ہم چھوٹے چھوٹے بچے تھے تو کھجور کی جڑ کے پاس سے چھوٹی چھوٹی کچی کھجوروں کو جن کو خلال کہا جاتا ہے، جمع کررہے تھے، تو اس طرف حضرت عمرؓ آنکلے، تو سب بچے ادھر ادھر بھاگ گئے اور میں اپنی جگہ جما رہا۔ جب وہ مجھ پر آکر جھک گئے تو میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! یہ تو وہ ہیں جو ہوا سے جھڑ جاتے ہیں تو انہوں نے کہا مجھے دکھا، میں دیکھوں گا کہ واقعی ہوا سے جھڑی ہوئی ہیں۔ مجھ سے چھپا تو نہیں رہا تو انہوں نے میری گود پر نظر ڈالی اور فرمایا تو نے سچ کہا ہے شاباش، سچ میں آنچ نہیں، سچ بولنے سے حق تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے۔
پھر میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ دیکھتے ہیں ان لڑکوں کو۔ بخدا جب آپؓ تشریف لے جائیں گے تو یہ مجھ سے آکر لپٹ جائیں گے اور جو کچھ میرے پاس ہے وہ سب چھین لیں گے۔ تو آپؓ میرے ساتھ چلے اور مجھے ٹھکانے تک پہنچادیا۔ دیکھئے اس بچے کے سچ بولنے اور اس کی دلیری کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے اس کا ساتھ دیا اور بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں۔
حضرت اصمعیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک نو عمر لڑکے سے جو اولاد عرب میں سے تھا، کہا: کیا تم اس بات سے خوش ہو سکتے ہو کہ تمہارے پاس ایک لاکھ درہم ہوں اور ان کے ساتھ حماقت و بے وقوفی بھی ہو؟
اس نے کہا: خدا کی قسم نہیں! میں نے کہا کیوں؟ اس نے کہا مجھے یہ ڈر ہے کہ میری بے وقوفی سے مجھ سے ایسی کوئی حرکت ہو جائے کہ لاکھ روپیہ تو جاتا رہے اور میرے پاس صرف حماقت و بے وقوفی رہ جائے۔ مطلب یہ ہے کہ دین کی دولت یعنی علم کی روشنی یا دنیا کا مال و دولت کو محفوظ اور خرچ کرنے کے لئے عقل و دانش مندی کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ علم جسم ہے اور عقل اس کے پر ہیں۔ (کتاب الاذکیاء ص 292، لعلامۃ ابن جوزی بغدادیؒ)
یاد رہے کہ عقل دانش علم کی روشنی سے نصیب ہوتی ہے اور باعمل علمائے کرام اور نیک بزرگوں کی باتوں پر عمل کرنے سے عقل ترقی کرتی ہے اور علم پر عمل کرنا بھی نصیب ہوتا ہے۔ اکبر الہ آبادی کہتے ہیں۔
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
٭٭٭٭٭
Next Post