نئی حکومت نے تباہ حال ملکی معیشت کو سدھارنے کیلئے ایک اقتصادی مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی میں ایک پاکستانی نژاد امریکی اکنامسٹ عاطف میاں کا نام بھی شامل کیا گیا تھا۔ جو قادیانی جماعت کا دیرینہ کارکن و مبلغ اور مرزا مسرور کا ذاتی مشیر ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دو ہزار تیرہ کی انتخابی مہم کے دوران بھی اس شخص کا نام لے کر اسے اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس پر ملک بھر میں شور اٹھا تو چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی بات واپس لے کر قوم کے سامنے وضاحت کی کہ انہیں عاطف میاں کے قادیانی ہونے کا علم نہیں تھا۔ اب برسر اقتدار آنے کے بعد اسی شخص کو مشاورتی کمیٹی کا رکن بنایا گیا۔ جس سے پوری قوم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ سوشل میڈیا میں خود تحریک انصاف کے کارکنان سمیت اکثر صارفین نے حکومت سے عاطف میاں کا نام واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ تاہم شروع میں حکومت اپنے مؤقف پر ڈٹ گئی اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے مخالفین کو شدت پسند کا طعنہ دے کر کہا کہ عاطف میاں کو کسی مذہبی عہدے سے نہیں نوازا جا رہا ہے۔ فواد چوہدری کے اس بیان پر بھی انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب کمیٹی میں قادیانی کی شمولیت کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ پھر پی ٹی آئی خواتین بھی عاطف میاں کی تقرری کے خلاف میدان میں نکل آئیں۔ مذہبی جماعتوں نے بھی اس معاملے پر احتجاج کی دھمکی دیدی تو حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور اس نے سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے بعد بالآخر قادیانی اکنامسٹ کو اقتصادی مشاورتی کونسل سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کا اعلان وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹیوٹر پیغام جاری کر کے کیا ہے۔ قوم کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے عاطف میاں کے نام کو واپس لینا مستحسن ہے اور اس سے بظاہر یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ لیکن اس پورے پس منظر پر غور کرنے سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں، جو انتہائی قابل غور اور سخت تشویش کا باعث ہیں۔ عمران خان خود تو پیغمبر اسلامؐ اور خلفائے راشدینؓ کی مثالیں دیتے ہیں اور اپنی ہر تقریر میں پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں، جو بظاہر لائق تحسین ہیں۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہوں نے ریاست مدینہ کے والی، سرکار دو عالمؐ کے دشمن اور غدار کو مشیر بنانے کا فیصلہ کیسے کرلیا؟ اگر کسی نے انہیں یہ مشورہ دیا ہے تو وہ کبھی بھی ان سے مخلص نہیں ہو سکتا۔ انہیں ایسے ناعاقبت اندیشوں سے بچنا چاہئے، جو عمران خان کو ایسے مشورے دے رہے ہیں، جو ان کی لٹیا ہی ڈبونے کا باعث بن سکتے ہیں۔ پھر دین بیزار عناصر اور میڈیا پر قابض قادیانی ایجنٹ جس طرح کھل کر عاطف میاں کی تقرری کا دفاع کرتے رہے۔ اسے دنیا کا بہترین اقتصادی ماہر باور قرار دے کر یہ تاثر دیا گیا اگر اسے کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا تو خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔ حالانکہ ملک و ملت سے مخلص اقتصادی ماہرین کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ جس میں بیرونی راتب پر پلنے والا میڈیا بھی اپنا گھنائونا کردار ادا کر رہا ہے۔ لاہور کے ایک اخبار کو یہاں تک جرأت ہوئی کہ اس نے عین یوم دفاع کے موقع پر قادیانیوں کا اشتہار شائع کردیا۔ میڈیا میں تسلسل سے اقلیتوں کے حقوق کا رونا رویا جا رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں اقلیتوں کو جتنے حقوق حاصل ہیں، اس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ دنیا کا کونسا ایسا ملک ہے، جہاں اقلیتی فرد کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے عہدے پر فائز کیا گیا ہو؟ لیکن قادیانیوں کا معاملہ دوسری اقلیتوں سے یکسر مختلف ہے۔ دراصل قادیانیت نہ کوئی مذہب ہے، نہ فرقہ اور نہ ہی مسلک۔ یہ خالص اسلام دشمن دجالی و ابلیسی نیٹ ورک ہے۔ دنیا کی تمام طاغوتی قوتیں اس کی پشت پر ہیں۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ملک اسرائیل میں قادیانیوں کے مراکز ہیں۔ جبکہ یہودی پروفیسر آئی ٹی نائومی نے اپنی کتاب ’’اسرائیل: اے پروفائل‘‘ میں لکھا ہے کہ چھ سو سے زائد پاکستانی قادیانی مرد وزن اسرائیلی فوج کا حصہ ہیں۔ مرزا غلام قادیانی کے پوتے مرزا مبارک نے بھی اپنی کتاب اَوَر فارن مِشنز میں اس کی تصدیق کی ہے۔ پروفیسر نائومی نے اپنی مذکورہ کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ کارگل جنگ کے بعد انڈین مرزائیوں نے ملک بھر سے چندہ جمع کرکے اپنی فوج کو بھاری رقوم سے نوازا تھا۔ قادیانی مسلم و پاکستان دشمنی کی ایک پوری تاریخ رکھتے ہیں۔ ان کا معاملہ دیگر اقلیتوں سے یکسر مختلف ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کی رو سے وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود خود کو مسلمان باور کر کے آئین کا مذاق اڑاتے ہیں اور سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔حالانکہ یہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی کے تحت جرم ہے اور عاطف میاں بار بار یہ جرم کرتا رہا ہے۔ اس لئے قوم دیگر اقلیتوں کے بجائے صرف ختم نبوت کے ان راہزنوں سے متعلق انتہائی حساس جذبات رکھتی ہے۔ عاطف میاں کے معاملے میں ناکامی کے بعد یہ عناصر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان کی جانب سے دوبارہ ایسی وارداتیں تسلسل سے ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس لئے قوم کو مستعد اور چوکنا رہنا ہوگا۔ملکی آئین میں جس ترمیم کے ذریعے قادیانیت کے سرطان کو ملت اسلامیہ کے جسم سے الگ کردیا گیا تھا، طاغوتی قوتیں ہمیشہ اسے ختم کے جتن کرتی رہی ہیں۔ قادیانیت کے ناسور کو لازوال قربانیوں کے بعد ملت کے جسم سے الگ کیا گیا، جس پر قومی اسمبلی میں طویل بحث و مباحثہ ہوا اور قادیانیوں کواپنا دفاع کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔حالیہ اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ اب دوبارہ اٹھایا جائے گا،جو عاشقان مصطفیؐ کے عشق کا اصل امتحان ہوگا۔جبکہ قادیانی اور ان کے ایجنٹ اس وقتی ناکامی کے بعد مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے مابین اختلافات کو ہوا دے کر یا تخریبی کارروائیوں کے ذریعے اپنے سینے کی آگ ٹھنڈی کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہمیں انہیں باہمی اتحاد و یگانگی کا مظاہرہ کرکے ان سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا اور دشمن کو بتانا ہوگا کہ ختم نبوت کے مسئلے پر تمام مسلمان متحد و متفق ہیں۔ علاوہ ازیں تمام والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قادیانیت کے حوالے سے ضروری آگاہی فراہم کریں تاکہ وہ دجالی میڈیا کے دام فریب سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر عاطف میاں کی تقرری کسی سازش کا حصہ نہیں تو ملک کے اکثریتی عوام کو دلی صدمہ پہنچانے پر عمران خان کو قوم سے غیر مشروط معافی مانگنی چاہئے اور یہ وعدہ کرنا چاہئے کہ وہ دوبارہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، جس سے ملک میں غیر ضروری ہیجان پیدا ہو اور عوام کے مذہبی جذبات مجروح ہوں۔
٭٭٭٭٭