قرآن نے زندگی کا رخ بدل دیا

0

میں نے محسوس کیا کہ قرآن پاک براہ راست میری روح سے مخاطب ہے اور مجھے روحانی سکون حاصل کرنے کے لیے کسی پادری کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ میں حقیقت کے قریب پہنچ چکی تھی۔ میں نے سارے کام چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ یہ مذہب ہی میرے دل کی بے چینی ختم کرسکتا تھا۔
اسلام لانے کے بعد میں نے اپنے لیے دیگر مسلمان خواتین کی طرح ایک لمبا سا چوغہ اور حجاب خریدا اور انہیں پہن کر انہی گلیوں سے گزری، جہاں سے میں مختصر لباس میں گزرا کرتی تھی۔ اگرچہ راستے میں مجھے وہی پرانے چہرے اور دکانیں نظر آئیں، لیکن ایک چیز تبدیل ہوچکی تھی۔ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے عورت ہونے پر فخر محسوس ہو رہا تھا۔ مجھے یوں لگا کہ تمام زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں اور میں آزاد ہوچکی ہوں۔ وہی لوگ جو پہلے مجھے کسی شکاری کی نظر سے دیکھتے تھے، میرا نیا روپ دیکھ کر حیران تھے۔ اب ان کے تاثرات بدل چکے تھے اور مجھے بھی خوشی محسوس ہورہی تھی۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اچانک میرے کندھوں سے بھاری بوجھ اتر گیا ہو۔ اب مجھے اپنا قیمتی وقت شاپنگ اور میک اپ کا سامان خریدنے کے لیے برباد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میرے اسلام لانے کے کچھ عرصے بعد ہی مختلف امریکی سیاستدانوں اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسکارف پر پابندی کا مطالبہ کردیا اور اسے رابطے میں رکاوٹ قرار دیا، جبکہ بعض عاقبت نااندیشوں نے اسے جہالت کی علامت قرار دیا۔ مجھے نام نہاد انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کی تنظیموں پر شدید حیرت ہوتی ہے۔ یہ تنظیمیں یوں تو عورت کی آزادی اور حقوق کے لیے بڑھ چڑھ کر مظاہرے کرتی ہیں، لیکن جب حجاب کی بات آتی ہے تو ان کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔ آخر کار تعلیم حاصل کرنے کی طرح حجاب پہننا بھی مسلمان عورت کا حق ہے اور اسے کسی صورت نہیں چھینا جاسکتا۔
میں آج بھی حقوقِ نسواں کے لیے کام کررہی ہوں، لیکن صرف مسلم خواتین کے حقوق کے لیے۔ میں مسلمان خواتین میں حجاب کو عام کرنا چاہتی ہوں۔ جب میں غیر مسلم تھی توساحل پر مختصر لباس پہن کر ماڈلنگ کرنا میری شناخت تھی، لیکن آج میری شناخت حجاب ہے۔ میں اپنی تمام مسلمان بہنوں سے بھی گزارش کرتی ہوں کہ درحقیقت خواتین کی آزادی کی نشانی حجاب ہے۔ وہ مسلم روایات کے خلاف مغربی دنیاکے زہریلے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے اسلامی اقدار کو اپنائیں۔ اسی میں عورت کی عظمت ہے‘‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیوں شروع کیا؟ تو سارہ بوکر نے بتایا کہ میری روح کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی، اسی دوران نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا۔ جس کے بعد ہر طرف سے اسلام پر حملے ہونے لگے۔ اسلام سے مجھے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی، میں اسلام کو ماضی کا ایک افسانہ، ایک بھولی بسری کہانی اور ’’پتھروں کے دور‘‘ کی ایک یادگار سمجھتی تھی۔ جب میرے کانوں میں ہر طرف سے یہ آوازیں گونجنے لگیں کہ اسلام عورتوں کا استحصال کرتا اور اسے گھر کی نوکرانی اور شوہر کے پاؤں کی جوتی سے زیادہ کوئی مقام نہیں دیتا، تو میں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنی آواز بھی اس اسلام مخالف ’’شور و غوغا‘‘ میں شامل کرلیں، بلکہ مجھے میری شہرت اور معاشرے میں ایک اسٹیٹس کا حامل ہونے کی وجہ سے اس بات کی باقاعدہ پیشکشیں ہونے لگیں۔ میں نے پہلے تو سوچا کہ میں بھی اس رو میں بہہ جائوں، کیوں کہ میں عورتوں کی آزادی کی علمبردار ہوں اور بزعم خویش اسلام حقوق نسواں کی راہ کی سب سے بڑی دیوار ہے۔
پھر جانے کیوں، سارہ نے فیصلہ کیا کہ پہلے تحقیق کرلینی چاہیے۔ انہیں یقین تھا کہ ان کی تحقیق اسلام مخالفت میں مزید شدت کا باعث بنے گی، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس تحقیق سے ان کی اپنی رائے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں یکسر بدل جائے گی، ورنہ شاید وہ ’’یہ کڑوا گھونٹ ‘‘ پینے کی زحمت بھی گوارا نہ کرتیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More