بیگم کلثوم اپنے شوہر اور بیٹی کے جیل جانے سے لاعلم

0

امت رپورٹ
لندن کے ہارلے اسٹریٹ کلینک میں زیر علاج بیگم کلثوم نواز کو ہوش میں آئے تقریباً دو ماہ ہونے کو آئے، تاہم اب تک انہیں اس بات سے لاعلم رکھا گیا ہے کہ ان کے شوہر، بیٹی اور داماد جیل کاٹ رہے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لئے روز کلینک جانے والے ایک لیگی اوورسیز عہدیدر اور اس سلسلے میں حسین نواز سے رابطے میں رہنے والے شریف فیملی کے قریبی دوست کے مطابق، اگرچہ جولائی کے پہلے ہفتے میں بیگم کلثوم نے ایک ماہ کوما میں رہنے کے بعد آنکھیں کھول لی تھیں اور یہ کہ اب انہوں نے لوگوں کو پہچاننا بھی شروع کر دیا ہے۔ تاہم خاندان کے افراد تاحال انہیں یہ بتانے سے گریزاں ہیں کہ ان کی حالت بے ہوشی کے دوران فیملی پر کیا قیامت گزر چکی۔ اس عہدیدار اور قریبی دوست کے بقول فیملی کے ارکان اس لئے بیگم کلثوم کو کچھ بتانے سے فی الحال گریز کر رہے ہیں کہ مبادا صدمے سے انہیں دوبارہ ہارٹ اٹیک نہ ہو جائے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بیگم کلثوم کی مکمل صحت یابی کے لئے طویل وقت درکار ہے۔ اس کے بعد ہی بیگم کلثوم کو ان کے شوہر اور بیٹی کے جیل جانے کے حوالے سے کچھ بتایا جائے گا۔ عہدیدار کے مطابق بیگم کلثوم اب بھی انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہیں۔ پچھلے ایک ماہ سے وہ اپنے جسمانی اعضاء کو معمولی حرکت دے سکتی ہیں۔ تاہم بیڈ پر بیٹھنے حتیٰ کہ ٹیک لگانے سے بھی قاصر ہیں۔ بالخصوص ہارٹ اٹیک نے بیگم کلثوم کے دل، گردوں اور پھیپھڑوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس بارے میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ برطانیہ کے قائم مقام صدر عبدالشکور نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حسین اور حسن نواز سمیت فیملی کے دیگر افراد اگرچہ روزانہ ہارلے اسٹریٹ کلینک جاتے ہیں تاہم بیگم کلثوم سے ملاقات اس وقت ہی ہوتی ہے جب ڈاکٹر اس کی اجازت دیں۔
پاکستان میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے میڈیا کوآرڈینیٹر محمد مہدی نے بیگم کلثوم نواز کی صحت کے بارے میں تازہ صورت حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ سابق خاتون اول کا وینٹی لیٹر اب ہٹایا جا چکا ہے۔ تاہم انہیں تاحال آئی سی یو میں رکھا گیا ہے۔ اگر کوئی ایمرجنسی ہوتی ہے تو پھر ہی دوبارہ وینٹی لیٹر لگایا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ نواز شریف اور مریم نواز سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کرنے والے ایک معروف صحافی نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ اپنی اہلیہ کے ذکر پر نواز شریف متفکر اور بطور بیٹی مریم نواز کی آواز رندھ جاتی ہے۔ جبکہ مریم نواز نے انہیں بتایا کہ ان کے دل پر صرف ایک بوجھ ہے کہ ان کی والدہ کلثوم نواز سوچتی ہوں گی کہ روز ان سے ویڈیو کال پر بات کرنے والی ان کی بیٹی سیاسی زندگی میں اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ اب ہفتے میں صرف ایک بار چند منٹ کے لئے ان کا حال پوچھنے کے لئے کال کرتی ہے۔ جبکہ نواز شریف نے بتایا کہ ہفتے میں صرف ایک دن 20 منٹ کے لئے جیل کے پی سی او سے وہ ٹیلی فون کر سکتے ہیں۔ محمد مہدی نے ان باتوں کی تصدیق کی اور مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے تک بیگم کلثوم نواز اپنے اعضاء کو معمولی حرکت دے سکتی تھیں لیکن بولنے کی کوشش میں ان کے ہونٹوں میں ہلکی سے جنبش ہوتی تھی یعنی وہ بولنے سے قاصر تھیں۔ لیکن اب نہ صرف وہ خاندان کے لوگوں کو پہچان رہی ہیں، ان کی بات سمجھ رہی ہیں بلکہ بہت آہستگی سے جواب دینے کے قابل بھی ہو چکی ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز جب ہفتے میں ایک بار انہیں فون کرتے ہیں تو ان سے نہایت مختصر بات ہو جاتی ہے، جو عموماً خیریت دریافت کرنے تک محدود ہوتی ہے۔ بیگم کلثوم اب تک یہ سمجھ رہی ہیں کہ پاکستان میں اپنی سیاسی مصروفیات کے سبب میاں صاحب اور بی بی مریم ان کو ہفتے میں صرف ایک بار فون کرتے ہیں۔ تاہم وہ اپنے طور پر خاندان کے افراد سے پوچھتی ضرور ہیں کہ ایسی کیا مصروفیت ہے کہ دونوں انہیں فون کرنے کے لئے بھی وقت نہیں نکال پا رہے۔ محمد مہدی کے مطابق گرفتاری سے قبل نواز شریف جب بھی پاکستان میں ہوتے تھے تو وہ طبیعت دریافت کرنے کے لئے بیگم کلثوم کو ہر روز کم از کم دو بار فون کیا کرتے تھے۔ جبکہ مریم نواز دن میں ایک بار لیکن ویڈیو کال کیا کرتی تھیں۔ محمد مہدی نے بتایا کہ اب دونوں باپ بیٹی کو اڈیالہ جیل سے ہفتے میں ایک دن صرف 20 منٹ ٹیلی فون کرنے کی جو سہولت میسر ہے اس میں سے بھی کئی منٹ ضائع ہو جاتے ہیں کہ جیل کے پی سی او سے وہ براہ راست لندن فون نہیں کر سکتے۔ لہٰذا پہلے وہ جاتی عمرہ والے گھر میں قائم ٹیلی فون ایکس چینج میں کال ملاتے ہیں اور وہاں سے پھر ان کا رابطہ لندن میں زیر علاج بیگم کلثوم سے کرایا جاتا ہے۔
ادھر برطانیہ میں موجود نواز شریف کے بیٹوں حسن اور حسین نواز اور سمدھی اسحاق ڈار کو اپنے پاکستان ڈیپورٹ کئے جانے کا کوئی خوف نہیں۔ لندن میں موجود لیگی ذرائع کے بقول ان تینوں کے وکلاء نے باور کرایا ہے کہ انٹرپول کے ذریعے حکومت پاکستان انہیں واپس نہیں لے جا سکتی کہ اس میں بے انتہا قانونی پیچیدگیاں ہیں، پھر یہ کہ دونوں ممالک کے درمیان تحویل مجرمان کا کوئی معاہدہ بھی نہیں۔ لہٰذا یہ خدشہ نہیں کہ حکومت پاکستان کے مطالبے پر انہیں حوالے کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ چند روز پہلے برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریو نے کہا تھا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹوں سمیت منی لانڈرنگ میں ملوث پاکستانی ملزمان کی حوالگی کے لئے حکومت پاکستان کی طرف سے دی گئی کسی بھی درخواست پر برطانیہ میرٹ پر غور کرے گا۔جس کے بعد ایک بار پھر میڈیا پر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ نئی حکومت ان تینوں کو پاکستان لانے میں کامیاب ہو جائے گی یا نہیں۔ تاہم برطانوی ایوان اقتدار کی راہداریوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اسحاق ڈار یا حسن اور حسین کو برطانیہ سے ڈی پورٹ کرنا بہت مشکل اور کسی حد تک ناممکن بات ہے۔ ان ذرائع کے مطابق برطانیہ کے اب پاکستان میں نئی حکومت کے ساتھ تعلقات ہیں۔ تاہم وہ سابق حکمراں جماعت مسلم لیگ ’’ن‘‘ سے بھی معاملات بگاڑنا نہیں چاہتی۔ حکومتیں جذبات کے بجائے اپنے عقل اور مفاد کے تحت فیصلے کرتی ہیں۔ ان ذرائع کے بقول پاکستانی حکومت نے اگرچہ بیرون ملک سے پاکستانیوں کے غیر قانونی اثاثے واپس لانے کا نعرہ لگایا ہے لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں۔ اس کے لئے انتہائی مہنگے ترین وکلاء ہائر کرنے ہوں گے جو پاکستانی حکومت فی الحال افورڈ نہیں کر سکتی۔ جبکہ ملزمان کے پاس مہنگے ترین وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کے لئے بے پناہ وسائل ہیں۔ برطانیہ میں جس کے پاس جتنا مہنگا وکیل ہوتا ہے وہ انصاف خرید سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ برطانیہ اور بالخصوص لندن ایک ایسی فنانشل سٹی ہے جہاں دنیا بھر کے لوگوں کا ناجائز پیسہ اور اثاثے موجود ہیں۔ ان میں افریقی ممالک سرفہرست ہیں جبکہ روس جیسے ملک کے بھی بے پناہ ناجائز اثاثے اور پیسہ یہاں موجود ہے حالانکہ روس کے ساتھ برطانیہ کے انتہائی کشیدہ تعلقات ہیں۔ برطانیہ کی یہ غیر اعلانیہ اسٹیٹ پالیسی ہے کہ اس ناجائز پیسے اور اثاثے کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا جائے کیونکہ اس پیسے سے ہی ان کا سارا کام چل رہا ہے۔ ذرائع کے بقول لہٰذا یہ تصور کرنا کہ لندن میں شریف فیملی کے فلیٹس حکومت پاکستان کے حوالے کر دیئے جائیں گے، ایک غیر حقیقی بات ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس اب تک کوئی ثبوت ہی نہیں کہ یہ فلیٹس غیر قانونی پیسے سے خریدے گئے۔ ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار شریف فیملی کے دیگر ارکان سے زیادہ چالاک ہیں اور فنانس میں ہیرا پھیری اور غیر قانونی پیسوں کو قانونی بنانے کے طریقے جانتے ہیں۔ یہ طریقے انہوں نے نون لیگ کے گزشتہ دور حکومت میں سیکھے تھے۔ پھر یہ کہ ان کے پاس نہایت ماہر وکلاء موجود ہیں۔ لہٰذا حکومت پاکستان کے لئے انہیں گھیرنا آسان کام نہیں۔
برطانوی لارڈ آف ہائوس کے تاحیات رکن لارڈ نذیر احمد کا بھی یہ کہنا ہے کہ جہاں انٹرپول کے ذریعے اسحاق ڈار یا حسن اور حسین نواز کو پاکستان لانا بہت مشکل ہے، وہیں دونوں ممالک کے درمیان چونکہ تحویل مجرمان کا معاہدہ نہیں ہے لہٰذا یہ طریقہ بھی کارگر نہیں ہو سکتا۔ تاہم اگر شریف فیملی کے ارکان پر کرمنل کیسز ہوتے تو اس معاہدے کے بغیر بھی انہیں ڈی پورٹ کئے جانے کا امکان ہو سکتا تھا۔ جیسا کہ ماضی میں چوہدری سرور، برطانوی شہری کے دو قاتلوں کو آزاد کشمیر سے لے گئے تھے۔ لیکن شریف فیملی کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے لارڈ نذیر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کبھی بھی برطانیہ کے ساتھ تحویل مجرمان کا معاہدہ نہیں کرے گا کیونکہ ہر حکومت کو یہ معلوم ہے کہ کل اس کی باری بھی آ سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے علیم خان اور جہانگیر ترین سمیت دیگر کئی سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کے برطانیہ میں بے پناہ اثاثے اور پیسہ پڑا ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ موجودہ حکومت شریف فیملی کے ارکان کو واپس لانے کے لئے برطانیہ کے ساتھ تحویل مجرمان کا معاہدہ کر لے۔ لائٹر موڈ میں لارڈ نذیر نے مثال دی کہ ’’کبھی دنبہ بھی بقر عید کی دعا مانگتا ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More